اسلام میں فلسفۂ جہاد | انتیسویں قسط

✍️ طاہر احرار

#image_title

اعتراض:

بعض حضرات کا کہنا ہے کہ پہلے جہاد سیکھنا فرض ہے اور پھر اس پر عمل کرنا۔ ہم اس لیے جہاد نہیں کرتے کیونکہ ابھی تک ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر جہاد سیکھا ہی نہیں اور نہ ہی آج کل دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر جہاد ہو سکتا ہے کیونکہ آج کل کسی بھی جہادی تحریک کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلتا۔

جواب:

بہتر اور آسان جواب یہ ہے کہ کوئی ان کم عقل لوگوں سے پوچھے، کہ کیا ہمارے دیگر اعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہیں؟ کیا انہیں بھی جہاد کی طرح ترک کر دیں؟

کیا ہماری نمازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازوں جیسی ہیں؟

کیا ہمارا حج، زکوۃ، روزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج، زکوۃ اور روزے جیسے ہیں؟

تو پھر یہ اعمال کیوں کرتے ہیں؟ انہیں کیوں نہیں چھوڑتے؟

کیا ہمارے شادی بیاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شادی بیاہ کی طرح ہیں یا ہمارے نوجوان غیر شادی شددہ رہیں؟

ہمیں روٹی پانی کھانا پینا بھی نہیں چاہیے کیونکہ ہماری خوراک اور لباس بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نہیں۔

اچھا ٹھیک ہے! پھر بیٹھ جاتے ہیں دعوت و تبلیغ بھی کیوں کریں؟ جبکہ وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نہیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو دعوت کفار کو دی تھی جبکہ ہم تو مسلمانوں کی اصلاح و تذکیہ کے لیے دیتے ہیں۔ پھر ہمیں درس و تدریس بھی چھوڑ دینا چاہیے، کیونکہ وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابِ صفہ کے درس و تدریس کی طرح نہیں۔

اگر یہ دلیل صرف جہاد نہ کرنے کے لیے ہے پھر تو یہ سراسر جہالت ہے۔

محترم! اعمال میں دو چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ ایک مقدار اور دوسرا معیار۔

مقدار یہ ہے کہ نماز پانچ وقت فرض ہے، رمضان المبارک میں روزے فرض ہیں، حج کا ایک مہینہ مختص ہے، زکوۃ اور عشر کی مقدار طے شدہ ہے۔

معیار یہ ہے کہ "أن تَعبُدَ اللّه َ كَأنَّكَ تَراہ” یعنی اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے اسے دیکھ رہے ہو۔ لیکن یہ درجہ ہر کسی کے لیے نہیں ہے۔

اللہ کے ہاں ہماری مسئولیت اور جوابدہی مقدار کے بارے میں ہے، کیونکہ یہ ہمارے اختیار میں ہے، جبکہ معیار کی مسئولیت نہیں ہے یہ ہم اپنے انسانی اہلیت و استطاعت کے مطابق کرتے ہیں۔

لہذا جہاد بھی ایک افضل ترین عبادت ہے، اس میں بھی ہماری مسئولیت مقدار کے بارے میں ہے، یعنی جہاد کا انتظام کریں، نہ کہ اس کے معیار کے بارے میں کہ لازمی صحابہ کرام کی طرح ہی جہاد کریں۔

Author

Exit mobile version