اسلام میں فلسفۂ جہاد | ستائیسویں قسط

✍️ طاہر احرار

اعتراض:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ اپنی آخری عمر تک کسی کافر کو خود نہیں قتل کیا، بلکہ صرف تبلیغ و اخلاق حسنہ سے کام لیا۔
اگر کفار کا قتل افضل عمل تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کافر تک کیوں قتل نہیں کیا۔ تو معلوم ہوا کہ تبلیغ اور اخلاق حسنہ قتال سے بہتر ہیں۔

جواب:

شریعت مطہرہ کے نزدیک سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دو طرح کی ہیں:

  1. قولی
  2. عملی

قولی سنت:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی سنت وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، چاہے اس پر عمل کیا یا نہیں۔ مثلاً: اذان و اقامت دونوں سنتیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو اس کا حکم بھی دیا لیکن خود اذان اور اقامت نہیں فرمائی۔

عملی سنت:

عملی سنت وہ سنت ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا۔

کفار کا قتل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل دونوں سے ثابت ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو کفار کو قتل کرنے کی ترغیب دی اور انہیں قتل کرنے کے بدلے جنت کی بشارت دی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أفشُوا السلامَ، وأطعِمُوا الطعامَ، واضْرِبُوا الْهَام، تُوَرَّثُوا الجِنانَ)(مشکوة المصابيح کتاب الجهاد)

سلام کو عام کرو، یعنی ہر آشنا و نا آشنا کو سلام کرو، لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور کفار کا سر کچلو، جنت کے وارث بنائے جاؤ گے۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے قتل پر خوشی کا اظہار بھی کیا، غزوہ بدر کے دن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو جہل کے قتل کی اطلاع ملی تو آپ نے تکبیر کا نعرہ لگایا، بعض روایات کے مطابق دو رکعت نفل نماز بھی ادا کی۔

ایک نابینا صحابی عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ نے ایک یہودی عورت عصماء کو قتل کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہتا ہو جس نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبی نصرت کی تو عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کافر کو اپنے ہاتھ سے بھی قتل کیا۔

ابی بن خلف نے ایک گھوڑا پالا، اسے خوب کھلایا، جب اچھی طرح مضبوط ہو گیا تو اس نے کہا کہ میں اس گھوڑے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کروں گا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: بلکہ میں ابی بن خلف کو قتل کروں گا۔ ان شاء اللہ

غزوہ احد میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی نیت سے آگے بڑھا، صحابہ کرام نے چاہا کہ اس کے سامنے آئیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہا کہ، چھوڑو! جب وہ نزدیک ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث بن صمیہ رضی اللہ عنہ سے ایک نیزہ لیا اور ابی بن خلف کی جانب پھینک دیا، اسے نیزے سے معمولی زخم لگا، لیکن وہ چیخنے لگا، اور کہا کہ اگر میرا درد مکے کے لوگوں میں تقسیم کر دو تو یہ سب کی ہلاکت کے لیے کافی ہے۔

الغرض وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مارنے کی وجہ سے سرف کے مقام پر جہنم میں پہنچ گیا۔

لہذا وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو قتل نہیں کیا، وہ اسلام کی تحریف کرنا اور مسلمانوں سے جذبۂ جہاد ختم کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن یہ دین قیامت تک غالب رہے گا!

ان شاء اللہ

Author

Exit mobile version