یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ دنیا میں مسلمانوں اور کفار کے درمیان کشمکش کا سلسلہ جاری ہے اور اس حوالے سے بہت سی آیات اور احادیث موجود ہیں لیکن تحریر کی طوالت سے بچنے کے لیے میں انہیں یہاں نقل نہیں کر رہا۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہر زمانے میں کفار اسلام اور مسلمانوں کی تباہی کے لیے بہت سی کوششیں کرتے رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ انہیں ان کی کوششوں میں ناکام اور ذلیل کیا۔
اسی وجہ سے ہمارے زمانے میں بھی کفار طرح طرح کے ہتھکنڈے آزما رہے ہیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے دردِ سر بن سکیں جن میں سے سب سے مؤثر ہتھکنڈہ داعش کے نام سے ہے جو ان کے مفادات کے لیے کام کر رہا ہے۔
موجودہ دور میں مسلمانوں کے خلاف جنگ طاغوت اکبر امریکہ کی طرف سے کنٹرول کی جا رہی ہے جو پوری دنیا اور ہمارے خطے میں بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اسے چلا رہا ہے۔
امارت اسلامیہ افغانستان کے خلاف بھی اس نے کسی بھی قسم کی مخالفت سے دریغ نہیں کیا۔
چونکہ داعش امریکہ کی بلواسطہ فوج ہے، اسی لیے اس نے اپنی اس فوج کی ساری توجہ مسلمان مجاہدین کے صفوں پر مبزول کر رکھی ہے تاکہ ان کو شکست دے اور ان کی قوت ختم کر ڈالے۔ لیکن ان کے اس دجل و فریب کو اب انتہائی سادہ لوح مسلمان تک سمجھ چکے ہیں۔
اگرچہ بار بار وضاحت کی ضرورت نہیں، لیکن پھر بھی امارت اسلامیہ کی قیادت نے بار بار اصرار کیا ہے کہ داعش خطے میں ہمارے پڑوسیوں کی جانب سے سرگرم ہے، وہیں سے انہیں مدد مل رہی ہے اور وہیں سے انہیں بھیجا جاتا ہے۔ جیسا کہ افغانستان کے وزیر خارجہ جناب امیر خان متقی صاحب نے بھی اپنے حالیہ ریمارکس میں اس طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا: افغانستان میں داعش کے ٹھکانے نہیں ہیں، لیکن افسوس کہ ہمارے تین پڑوسی ممالک میں سے ایک پڑوسی ملک میں داعش کے لیے افرادی قوت تیار ہوتی ہے (اشارہ تاجکستان کی طرف ہے)، دوسرا ملک اس راستے پر بیٹھا ہے جہاں سے امن میں خلل ڈالنے والے افراد گزرتے ہیں (اشارہ ہمارے ایک اور پڑوسی ملک ایران کی طرف ہے)، اور تیسرا ملک اپنی سرزمین پر انہیں مراکز، فنڈنگ، اور پلاننگ کے مراکز فراہم کر رہا ہے (اشارہ پاکستان کی طرف ہے)۔
یہ تینوں ہمارے وہ پڑوسی ہیں جو سالوں سے افغانستان کی مومن اور مجاہد عوام کے خلاف امریکہ کے ساتھ براہ راست یا بلواسطہ تعاون کرنے کے لیے کام کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔
یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ داعشی خوارج کی افرادی قوت تاجکستان میں تیار ہوتی ہے، ایران سے گزرتی ہے، پاکستان میں پلاننگ کرتی ہے اور افغانستان میں مسلمانوں کے امن کے لیے خطرہ بنتی ہے۔
اس سلسلے میں امارت اسلامیہ نے بار بار وضاحت کی ہے۔ وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد نے ایک انٹرویو میں ان داعشی خوارج کی تعداد کا بھی انکشاف کیا جو مارے گئے یا گرفتار ہوئے۔