امارتِ اسلامی ایک مکمل اسلامی نظام ہے!

خلیل الرحمن

کچھ عرصہ قبل چند عرب نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر امارتِ اسلامی کے راہنما کا یہ بیان شیئر کیا تھا کہ: ’’افغانستان واحد اسلامی ملک ہے جہاں مغربی قوانین و اصول نافذ نہیں ہیں‘‘۔

یہ بات ایک حقیقت ہے اور اس کے دو پہلو قابل غور ہیں:

اول:

دنیا کے تمام ممالک، خصوصاً اسلامی ممالک میں، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے نام پر امریکہ اور مغربی طاقتوں کے بنائے ہوئے سیکولر قوانین نافذ کیے جاتے ہیں۔ ان قوانین کو کفری دنیا یا مغرب کے ساتھ تعلقات کا دروازہ سمجھا جاتا ہے اور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ان قوانین کے نفاذ سے ان کی بین الاقوامی شناخت اور مقام میں اضافہ ہو گا۔

عالمِ اسلام نے اس حوالے سے اس قدر غلو کیا ہے کہ بعض ممالک نے مغربی قوانین کو خود مغرب سے بھی بہتر انداز میں نافذ کیا ہے اور پھر اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار ہیں اور یہ سب کچھ صرف اس لیے ہوتا ہے تاکہ امریکہ اور اس کی مغربی اتحادی قوتوں کی نظر میں اہم اور قابلِ قبول بنے رہیں اور بین الاقوامی سیاست و معیشت میں کوئی مقام حاصل کر سکیں۔

دوم:

دوسری طرف آج کے عرب نوجوان ہیں، جنہوں نے بالآخر مغرب کی غلامی کا بوجھ محسوس کر لیا ہے اور جان چکے ہیں کہ ان کا انجام غزہ اور فلسطین جیسا ہوگا۔ ان کے حکمران ذاتی مفادات اور اقتدار کی بقا کے لیے مغربی قوانین اور اصول اپنے عوام پر نافذ کر رہے ہیں۔ بہت سے عرب ممالک مغرب کی تقلید اور امریکہ کو خوش کرنے میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ ان کے عوام تنگ آ چکے ہیں۔

حالیہ عرب اسپرنگ (Arab Spring) اس کی بہترین مثال ہے، جہاں عوام نے بغاوت کی، لیکن افسوس کہ اس بغاوت میں بھی اسلامی شریعت کی طرف رجوع کرنے کے بجائے وہ ایک بار پھر مغربی مداخلت کا شکار بنے۔

دونوں پہلوؤں کے پس منظر میں ہم افغانستان پر اللہ تعالیٰ کی اس خاص مہربانی کا عکس دیکھتے ہیں، جس کے ذریعے اس نے افغانستان کو پوری دنیا پر یہ امتیاز بخشا کہ وہ انسانی اور خصوصاً مغربی انسان کے بنائے ہوئے قوانین و اصولوں سے آزاد ہو اور صرف اور صرف اللہ کے سچے قانون (شریعت) کا پابند بنے۔

دنیا نے اب تک امارتِ اسلامی کو رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا، اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ افغانستان میں وہ تمام شرائط موجود ہیں جو کسی حکومت کے بین الاقوامی طور پر تسلیم کیے جانے کے لیے ضروری ہوتی ہیں، جیسے مکمل امن و استحکام، خودمختار حکمرانی، قومی اتحاد اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات، لیکن ایک واحد چیز جو مغرب اور عالمِ کفر کے لیے ناقابلِ برداشت ہے، وہ اسلامی شریعت کا مکمل نفاذ اور اسلام کی حکمرانی ہے۔

شاید یہی سب سے بڑی دلیل ہو کہ آج افغانستان میں ایک مکمل اسلامی نظام نافذ ہے۔ وہ ممالک جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں، انہوں نے مختلف ذرائع سے افغانستان کے ساتھ سیاسی روابط اور دو طرفہ تعلقات قائم کیے ہیں۔ وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ امارتِ اسلامی کی واحد سرخ لکیر ’’اسلام‘‘ ہے۔

یہ ممالک دوسروں کی طرح نہ تو آج کی عالمی سیاست کے دباؤ میں مغرب یا امریکہ سے تعلقات کے توازن و تقلید کی پالیسی پر چلتے ہیں، اور نہ ہی اپنی خودمختاری کو کسی کے کہنے پر قربان کرتے ہیں۔ بلکہ اپنے تمام فیصلوں میں مکمل آزادی رکھتے ہیں اور اپنے ہر وعدے اور مؤقف پر ثابت قدم ہیں۔

اسلام کا مقدس دین اپنے پانچ بنیادی ستونوں پر قائم ہے اور افغانستان کی موجودہ حکومت نے ان ستونوں کے قیام اور نفاذ کے لیے تمام بیرونی اور داخلی انسانی (وضَعی) قوانین کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ حکومت نے اپنے ہر معاہدے، فیصلے اور ترقی کے معیار کو صرف اور صرف اسلام اور شریعت پر مبنی رکھا ہے۔

چونکہ اسلامی نظام کے ان بنیادی ارکان کے نفاذ کے لیے کسی بھی ملک میں سیاسی و اقتصادی آزادی، یعنی خودمختاری نہایت ضروری ہوتی ہے اور بیرونی مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے، تو آج واقعی افغانستان کو یہ امتیاز حاصل ہے۔ یہاں کی حکومت کی تینوں ستونوں میں ایسے افراد مقرر کیے گیے ہیں جنہوں نے دین اور شریعت میں تخصص کیا ہے۔ وہ شریعت کی روشنی میں ملک، وطن اور قوم سے مخلص وابستگی رکھتے ہیں اور ساتھ ہی عالمی برادری سے تعلقات، بات چیت اور سیاست کی بہتر زبان سے بھی واقف ہیں۔

 

دوسرے پہلو سے اگر دیکھا جائے تو ہم نے پہلے افغان عوام کی بنیادی ضرورت کو بیان کیا تھا۔ جدید دور میں تین بڑی سلطنتوں کے خلاف ان کی جدوجہد اور جہاد کا مقصد کیا تھا؟ کیوں انہوں نے ان کے ساتھ ہم آہنگی اور مفاہمت نہیں کی؟

اس کا سبب ملک میں اسلامی نظام اور شریعت کا نفاذ تھا۔ یہاں کوئی دوسرا نظام نہ تو قائم رہ سکتا تھا اور نہ ہی لوگوں کی خواہش تھی۔ اس لیے کئی دہائیوں بعد، لوگوں کی یہی آرزو پوری ہوئی ہے۔ اب وہ پرامن اور خوشحال ہیں اور اپنے نظام کی حمایت کر رہے ہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ایک خالص اور مکمل اسلامی نظام کے مشتاق تھے۔ اس نظام کے تمام قائدین دین اور شریعت کے ماہر ہیں، رائے عامہ اور عوامی حمایت اس کا ایک بنیادی پہلو ہے، کیونکہ وہ عوام میں سے اٹھے ہیں اور عوام کے درد اور خواہشات سے بخوبی واقف ہیں۔

 

تعلیمی شعبے میں، چاہے وہ عصری ہو یا دینی، اصلاحات اور تجدیدی کام جاری ہیں، نصاب، اساتذہ اور وسائل پر سب سے زیادہ بجٹ خرچ کیا جا رہا ہے۔ یونیورسٹیز، مدارس اور اسکولوں پر کام ہو رہا ہے تاکہ معیاری تعلیم فراہم کی جا سکے۔ نوجوان فارغ التحصیل ہونے کے بعد نہ صرف دین بلکہ عصری علوم میں بھی مہارت اور آگاہی حاصل کر سکیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ امارتِ اسلامی افغانستان دنیا کا واحد نظام ہے جس نے اپنا خونِ جگر دے کر اپنی عوام کو شریعت کی حکمرانی عطا کی ہے اور اس کی برکت سے وہ افغانستان جو کبھی غیر محفوظ، بدنام اور ناکام ممالک میں سرفہرست تھا، اب امن، سکون اور ایک مکمل اسلامی نظام رکھنے والے ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔

 

اگر یہ نظام دنیا کے ساتھ مفاہمت کر لیتا، شریعت کے نظام اور اصولوں کی بجائے وضعی قوانین اور مغرب کے بنائے ہوئے کنونشنز اور قوانین کو تسلیم کرتا اور ان کے پیچھے چلتا تو آج یہ دیگر ممالک کی طرح مغرب کا تابع ملک ہوتا۔ پھر اسے اپنے داخلی اور خارجی فیصلوں میں وہ خودمختاری حاصل نہ ہوتی جو ایک مکمل اسلامی حکمرانی اور نظام کے شایانِ شان ہوتی ہے۔

یہ بہتر ہو گا کہ دنیا افغان عوام کے اس عزم و خواہش کا احترام کرے اور امارتِ اسلامی کا موازنہ ان اسلامی ممالک سے نہ کرے جن کے جھنڈے تو اسلامی ہیں، مگر ان کی پالیسی اور اصول صرف اور صرف مغرب اور عالمِ کفر کی نقل و کاپی ہیں۔ وہ اپنی عوام کو جمہوریت کے نعرے کے تحت یرغمال بناتے ہیں، مگر افغانوں نے شریعت کو مضبوطی سے تھام کر اور مغربی آئین کے پیچھے پڑکر مغربی جال سے خود کو آزاد کر لیا ہے اور حقِ خود ارادیت حاصل کیا ہے۔

Author

Exit mobile version