امارت اسلامیہ کے خلاف داعشی خوارج کے پروپیگنڈے اوراعتراضات کا شرعی جائزہ | سترہویں قسط

مولوی احمد علی

مکفِّرہ عمل "کافر بنانے والا عمل” یا اصطلاحاً وہ عمل جس سے انسان کافر ہوجاتا ہے، ہر کسی کے لیے مکفِّرہ ہوتا ہے اور ایمان سمیت تمام حسنات اور نیکیوں کا خاتمہ کرنے والا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ کافروں کے ساتھ وہ معاونت اور مدد مکفِّرہ یعنی کافر کرنے والی ہے جو عقیدے کی فساد کی بنیاد پر ہو، ورنہ اگر کوئی عمل مطلقاً مکفِّرہ ہو تو پھر اس میں تقسیم نہیں کی جا سکتی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے یہ مکفِّرہ نہ ہو اور دوسرے لوگوں کے لیے یہ مکفِّرہ یعنی کافر کرنے والا ہو۔

اگرچہ ﴿اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ﴾ کے تحت بہت سے لوگ ہیں جو خطرناک کبیرہ گناہ (کفر اور شرک کے بغیر) کرتے ہیں، لیکن پھر کچھ ایسے عظیم حسنات انجام دیتے ہیں جن کی بدولت وہ کبیرہ گناہ ختم ہوجاتے ہیں، جیسے بدر اور حدیبیہ کے شہداء، یہ ایسے عظیم الشان اعمال تھے جن میں سے ایک گروہ کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿لَقَدْ رَضِىَ اللّٰہُ عَنْ الْمُؤْمِنِينَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ﴾

اور دوسرے گروہ سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَىٰ أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ»۔

جیسا کہ حقوق آل البیت کی پہلی جلد صفحہ نمبر۳۲ پر حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جب حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے مشرکین کو خط بھیجنے کے واقعہ کا ذکر کیا تو فرمایا کہ یہ شدید گناہ کا کام تھا، اسی طرح انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ

"وكان يسيء إلى مماليكه”

یعنی وہ اپنے غلاموں کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے اور جو شخص اپنے غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے، اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لن يدخلَ الجنَّةَ سيئُ الملكة”

یعنی بد سلوک مالک جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔ لیکن چونکہ وہ غزوہ بدر اور حدیبیہ میں شریک ہوئے تھے، تو ﴿اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ﴾ کی بنیاد پر ان دونوں سنگین گناہوں کو معاف کر دیا گیا، جیسا کہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

"ثم مع هذا لما شهد بدرًا والحديبية غفر الله له ورضي عنه، فإن الحسنات يذهبن السيئات۔”

یعنی اس کے باوجود جب وہ بدر اور حدیبیہ میں شریک ہوئے تو اللہ تعالی نے ان کی مغفرت فرمادی اور ان سے راضی ہوئے، کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔

گناہوں سے مراد عام کبیرہ گناہ ہیں، کفر، شرک اور ارتداد مراد نہیں ہیں، کیونکہ کفر، شرک اور ارتداد وہ گناہ نہیں ہیں جو حسنات کے ذریعے مٹ کر ختم ہوسکیں، یہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے؛ لہذا اگر مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد اور معاونت مطلقا کفر و ارتداد ہوتا تو پھر بدر یا حدیبیہ میں شرکت سے یہ زائل نہیں ہوسکتے تھے۔ جیسے حافظ ابن القیم رحمہ اللہ اپنی کتاب "زاد المعاد” کی تیسری جلد صفحہ ۳۷۲ پر فرماتے ہیں:

[فصل في أن الْكَبِيرَةُ الْعَظِيمَةُ مِمَّا دُونَ الشِّرْكِ قَدْ تُكَفَّرُ بِالْحَسَنَةِ الْكَبِيرَةِ الْمَاحِيَةِ]
فَصْلٌ:
وَفِيهَا: أَنَّ الْكَبِيرَةَ الْعَظِيمَةَ مِمَّا دُونَ الشِّرْكِ قَدْ تُكَفَّرُ بِالْحَسَنَةِ الْكَبِيرَةِ الْمَاحِيَةِ، كَمَا وَقَعَ الْجَسُّ مِنْ حاطب مُكَفَّرًا بِشُهُودِهِ بَدْرًا، فَإِنَّ مَا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ هَذِهِ الْحَسَنَةُ الْعَظِيمَةُ مِنَ الْمَصْلَحَةِ، وَتَضَمَّنَتْهُ مِنْ مَحَبَّةِ اللَّهِ لَهَا وَرِضَاهُ بِهَا وَفَرحِهِ بِهَا وَمُبَاهَاتِهِ لِلْمَلَائِكَةِ بِفَاعِلِهَا، أَعْظَمُ مِمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ سَيِّئَةُ الْجَسِّ مِنَ الْمَفْسَدَةِ وَتَضَمَّنَتْهُ مِنْ بُغْضِ اللهِ لَهَا، فَغَلَبَ الْأَقْوَى عَلَى الْأَضْعَفِ، فَأَزَالَهُ.

بلکہ کفر، شرک اور ارتداد ایسے اعمال ہیں جو تمام حسنات اور نیکیوں کو ختم کر دیتے ہیں، کوئی بھی حسنة اور نیک عمل اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا؛ نعوذ باللہ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی کا مرتکب ہو جائے تو اس کے تمام حسنات و نیکیاں ختم ہو جاتی ہیں، جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے، اس کے گناہ معاف نہیں کیے جا سکتے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا﴾(النساء 4:48)

امام اهل السنة علامه ابو منصور الماتریدی رحمه الله اپنی تفسیر ’’تاویلات الماتریدیة‘‘میں اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:

’’فصار كأنه قال: لا يغفر أن يشرك به إذا لم يتب عنه، ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء وإن لم يتب منه‘‘.

ترجمہ: گویا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اللہ کے ساتھ شرک کیا جائے، اس کے علاوہ جو بھی دوسرے گناہ ہوں، اگر اللہ چاہے تو وہ ان کو معاف کر سکتا ہے، چاہے کسی نے ان سے توبہ نہ بھی کی ہو۔

حافظ ابن تیمیہ رحمہ الله اپنی کتاب”اسباب رفع العقوبة عن العبد” کے صفحہ ۲۵ پر فرماتے ہیں:

(الثَّالِثُ): أَنَّ قَوْلَهُ لِأَهْلِ بَدْرٍ وَنَحْوِهِمْ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْت لَكُمْ فَكَمَا لَا يَجُوزُ حَمْلُ الْحَدِيثِ عَلَى الْكُفْرِ، لِمَا قَدْ عُلِمَ أَنَّ الْكُفْرَ لَا يُغْفَرُ إلَّا بِالتَّوْبَةِ، لَا يَجُوزُ حَمْلُهُ عَلَى مُجَرَّدِ الصَّغَائِرِ الْمُكَفَّرَةِ بِاجْتِنَابِ الْكَبَائِرِ.

ترجمہ: (تیسرا) اللہ تعالیٰ کا یہ قول اہل بدر وغیرہ کے بارے میں کہ جو کچھ چاہو کرو، میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے، تو جیسا کہ یہ حدیث کفر پر حمل نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ بات قطعی طور پر معلوم ہے کہ کفر توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتا، اسی طرح یہ حدیث صغیرہ گناہوں پر بھی حمل نہیں کی جا سکتی، کیونکہ وہ خود بخود کبیرہ گناہوں سے اجتناب کے ذریعے ختم ہو جاتے ہیں۔

امام قرطبی رحمہ اللہ بھی اپنے تفسیر میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:

﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ﴾ رُوِيَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلَا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا﴾ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَالشِّرْكُ؟ فَنَزَلَ: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾. وَهَذَا مِنَ الْمُحْكَمِ الْمُتَّفَقِ عَلَيْهِ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ بَيْنَ الْأُمَّةِ. ﴿وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ مِنَ الْمُتَشَابِهِ الَّذِي قَدْ تَكَلَّمَ الْعُلَمَاءُ فِيهِ. فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ: قَدْ أَبَانَتْ هَذِهِ الْآيَةُ أَنَّ كُلَّ صَاحِبِ كَبِيرَةٍ فَفِي مَشِيئَةِ اللَّهِ تَعَالَى، إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ ذَنْبَهُ، وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ عَلَيْهِ مَا لَمْ تَكُنْ كَبِيرَتُهُ شِرْكًا بِاللَّهِ تَعَالَى.

ترجمہ: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ﴾ روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی:
﴿اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا﴾ تو ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ اور شرک کے بارے میں کیا ہوگا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُشْرَكُ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذَٰلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ﴾

یہ آیت اُس محکم اور متفق علیہ نص میں شامل ہے جس پر امت میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور ﴿وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ﴾ متشابہ نہیں ہے جس پر علماء کرام کے درمیان بحث یا اختلاف ہوا ہو۔

محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ آیت واضح کرتی ہے کہ ہر شخص جو کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو، وہ اللہ کی مشیئت کے تابع ہے، اگر اللہ چاہے تو اس گناہ کو معاف کر دے گا اور اگر چاہے تو اس پر سزا دے گا، بشرطیکہ اس کا گناہ اللہ کے ساتھ شرک نہ ہو۔

مقصد اور خلاصہ:

کفر اور شرک حسنات کے ذریعے معاف نہیں ہوتے، بلکہ ان کے ارتکاب سے حسنات ختم ہوجاتی ہیں، اس کے باوجود کہ سید المعصومین، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء علیہم السلام معصوم ہیں یعنی گناہوں سے قبل اور بعد از نبوت معصوم ہیں، پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے:

﴿لَئِنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِينَ﴾

یعنی اگر آپ نے شرک کیا تو یقیناً آپ کے تمام اعمال ضائع ہو جائیں گے اور آپ خسارے میں ہوں گے، لہٰذا شرک اور کفر وہ اعمال ہیں جو تمام اعمال کو برباد کر دیتے ہیں اور کسی کو ان کے ارتکاب کی اجازت نہیں ہے۔

والمعنى أن الله تعالى لا يغفر الكفر لمن اتصف به بلا توبة وإيمان، لأنه سبحانه بتّ الحكم على خلود عذابه، وحكمه لا يتغير، ولأن الحكمة التشريعية مقتضية لسدّ باب الكفر، ولذا لم يبعث نبي إلا لسدّه، وجواز مغفرته بلا إيمان مما يؤدي إلى فتحه.

امام آلوسی رحمہ اللہ اپنے تفسیر ’’روح المعانی‘‘ کی تیسری جلد صفحہ۵۰ پر فرماتے ہیں:

اگر کوئی شخص ایک بار کفر کا ارتکاب کرتا ہے یعنی کفر کی صفت اختیار کرتا ہے تو جب تک وہ اس کفر سے توبہ نہ کرلے اور دوبارہ ایمان نہ لائے، اس کے لئے معافی ممکن نہیں ہے، کیونکہ جو شخص کفر کا مرتکب ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ہمیشہ کے عذاب کا قطعی حکم صادر کر رکھا ہے اور اللہ کے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، حکمتِ تشریعیہ کا تقاضا یہ ہے کہ کفر کا دروازہ بند کیا جائے اور اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس دروازے کو بند کرنے کے لئے بھیجا ہے، اس لئے ایمان کے بغیر معافی کا امکان، کفر کے دروازے کو کھولنے کا باعث بنے گا۔

شيخ الاسلام علامه حافظ ابن تیمیہ رحمه الله "مجموع الفتاوی” دوسری جلد کے صفحہ ۱۵۱پر فرماتے ہیں:

إنَّ اللهَ لَمْ يَجْعَلْ شَيْئًا يُحْبِطُ جَمِيعَ الْحَسَنَاتِ إلَّا الْكُفْرَ، كَمَا أَنَّهُ لَمْ يَجْعَلْ شَيْئًا يُحْبِطُ جَمِيعَ السَّيِّئَاتِ إلَّا التَّوْبَةَ. وَ”الْمُعْتَزِلَةُ مَعَ الْخَوَارِجِ” يَجْعَلُونَ الْكَبَائِرَ مُحْبِطَةً لِجَمِيعِ الْحَسَنَاتِ حَتَّى الْإِيمَانِ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ج وَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٢١٧﴾ فَعَلَّقَ الْحُبُوطَ بِالْمَوْتِ عَلَى الْكُفْرِ، وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ هَذَا لَيْسَ بِكَافِرِ، وَالْمُعَلَّقُ بِشَرْطِ يَعْدَمُ عِنْدَ عَدَمِهِ.

وَقَالَ تَعَالَى: ﴿وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ﴾ وَقَالَ تَعَالَى لَمَّا ذَكَرَ الْأَنْبِيَاءَ: ﴿وَمِنْ اٰبَآئِهِمْ وَذُرِّيّٰتِهِمْ وَاِخْوَانِهِمْ ج وَاجْتَبَيْنٰهُمْ وَهَدَيْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ٨٧ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ يَهْدِىْ بِهٖ مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ٨٨﴾ وَقَالَ: ﴿لَئِنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ٦٥﴾ مُطَابِقٌ لِقَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ﴾. فَإِنَّ الْإِشْرَاكَ إذَا لَمْ يُغْفَرْ وَأَنَّهُ مُوجِبٌ لِلْخُلُودِ فِي النَّارِ لَزِمَ مِنْ ذَلِكَ حُبُوطُ حَسَنَاتِ صَاحِبِهِ، وَلَمَّا ذَكَرَ سَائِرَ الذُّنُوبِ غَيْرَ الْكُفْرِ لَمْ يُعَلِّقْ بِهَا حُبُوطَ جَمِيعِ الْأَعْمَالِ، وَقَوْله: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اتَّبَعُوْا مَاۤ اَسْخَطَ اللّٰهَ وَكَرِهُوْا رِضْوَانَهٗ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَهُمْ ٢٨﴾. لِأَنَّ ذَلِكَ كُفْرٌ، وقَوْله تَعَالَى: ﴿لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِىِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ٢﴾ لِأَنَّ ذَلِكَ قَدْ يَتَضَمَّنُ الْكُفْرَ فَيَقْتَضِي الْحُبُوطَ، وَصَاحِبُهُ لَا يَدْرِي كَرَاهِيَةَ أَنْ يُحْبَطَ أَوْ خَشْيَةَ أَنْ يُحْبَطَ، فَنَهَاهُمْ عَنْ ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ يُفْضِي إلَى الْكُفْرِ الْمُقْتَضِي لِلْحُبُوطِ.

وَلَا رَيْبَ أَنَّ الْمَعْصِيَةَ قَدْ تَكُونُ سَبَبًا لِلْكُفْرِ كَمَا قَالَ بَعْضُ السَّلَفِ: الْمَعَاصِي بَرِيدُ الْكُفْرِ؛ فَيَنْهَى عَنْهَا خَشْيَةَ أَنْ تُفْضِيَ إلَى الْكُفْرِ الْمُحْبِطِ، كَمَا قَالَ تَعَالَى: ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ﴾ – وَهِيَ الْكُفْرُ.

ان تمام نصوص اور عبارات کا مقصد یہ ہے کہ "اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ” سے مراد عام گناہ ہیں، کفر نہیں ہے، کیونکہ کفر کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے، لہذا یہ ایک بے بنیاد وسوسہ ہوگا اگر کوئی یہ کہے کہ مسلمان کے خلاف کافروں کی مدد کرنا مطلقاً کفر ہے لیکن حاطب بن ابی بلتعة رضی اللہ عنہ اس لیے کافر نہیں ہوئے کیونکہ وہ بدری صحابی تھے اور اللہ تعالیٰ نے بدر کے صحابہ کے بارے میں فرمایا:

’’اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ‘‘۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے بدر کے صحابہ کے لیے اپنے خاص فضل سے معافی کا وعدہ کیا تھا اور یہ کسی دوسرے گناہ کی نوعیت سے متعلق ہے، کفر کے بارے میں نہیں ہے۔

Author

Exit mobile version