اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کی فریب کاریوں کے بعد افغانستان 1970ء کی دہائی کے بحران کی طرف بڑھ رہا تھا، لیکن امارت اسلامی کی سیاسی اور عسکری تدابیر، اسلامی شریعت کے حقیقی اصولوں پر پختہ عزم نے افغانستان کو ایک بار پھر بچایا اور صرف دو ہفتوں کے اندر ایک مضبوط اور حقیقت پسند اسلامی نظام قائم کیا، تاکہ کوئی بھی خانہ جنگی کے حوالے سے وہم وگمان بھی نہ کرسکے۔
آج افغانستان کی عوام بخوبی جان سکتے ہیں کہ انہیں مغربی جمہوریت اور پاکیزہ اسلامی شریعت، دونوں میں سے کس نے امن وسکون حاصل ہوا اور ان کی عزت و وقار کس نظام میں محفوظ ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا، جمہوریت مغربی ممالک کے پروپیگنڈے کا ایک ذریعہ ہے، انہوں نے کوشش کی ہے کہ اسلامی دنیا کے کچھ جماعتوں اور رہنماؤں کو بہکایا جائے، امریکی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل افراد کو اقتدار میں لایا جائے اور اسلامی جمہوریت اور جمہوریت کے نعروں کے ذریعے انہیں اقتدار کے تخت پر بٹھایا جائے۔
بدقسمتی سے ایسے رہنماؤں میں سے کچھ جمہوریت کے اثر میں آ کر "اسلامی جمہوریت” کی اصطلاح بھی ایجاد و استعمال کی ہے، تیونس کے اسلامی رہنما راشد الغنوشی نے ۱۹۹۲ء میں جب وہ سیاسی جلاوطنی میں تھے، لندن میں "ابروزور” ادارے کو دیے گیے ایک انٹرویو میں کہا تھا:
’’اگر جمہوریت سے مراد وہ لبرل حکومتی ماڈل ہے جو مغرب میں رائج ہے، یعنی ایسا نظام جس میں لوگ آزادانہ طور پر اپنے نمائندے اور رہنما منتخب کریں اور ساتھ ہی اس میں تمام آزادیوں، طاقت اور انسانی حقوق کے حوالے سے عوام کو جگہ دینے کی اجازت ہو تو اس صورت میں مسلمانوں کو اپنے مذہب میں ایسی کوئی بات یا حکم نہیں ملے گا جو جمہوریت کے خلاف ہو اور ایسا کوئی کام (جمہوریت کی مخالفت) کرنا ان کے فائدے میں بھی نہیں ہے‘‘۔
غنوشی کی طرح کئی دیگر مسلمان رہنما بھی مغربی افکار سے متاثر ہوکر کافی آگے بڑھ چکے ہیں اور انہوں نے جمہوریت کو موجودہ دنیا میں اسلام کے خاص اصولوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مناسب راستہ قرار دیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ تمام لوگ اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں کہ اسلام اپنے پیروکاروں کو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی پیروی سے منع کرتا ہے اور صرف اس عظیم آسمانی اور الہی قانون کی پیروی کی دعوت دیتا ہے، جو انسانی عقل اور فطرت سے کہیں بلند ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ انسانیت کی روحانی اور جسمانی ہمہ قسم کی ضروریات اور خصوصیات کو پوری طرح مدنظر رکھا گیا ہے۔
آخرمیں ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ امارت اسلامی افغانستان مغربی اور غیر ملکی افکار، نظریات و نظاموں کو نہیں مانتی، اس بات کا سبب یہ ہے کہ پچھلے تقریباً پانچ دہائیوں سے افغانستان میں جو خانہ جنگی جاری تھی، اس کا بنیادی سبب ایک خالص اسلامی نظام کا عدم وجود تھا۔ اگر یہ بات ہوتی کہ لبرل اور مغربی جمہوریتوں کے نظریات کو عملی طور پر نافذ کرکے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا تھا، تو یہ کام کئی دہائیاں قبل ہی ہو چکا ہوتا اور آج افغانستان میں امن ہوتا مگر حقیقت یہ ہے کہ انہی نظاموں کی وجہ سے گذشتہ پانچ دہائیوں سے ملک میں خانہ جنگی، فرقہ واریت، لسانیت اور باہمی منافرت کا بازار گرم تھا۔
افغانستان صرف اور صرف شریعت اسلامی کی پر ہی مکمل امن اور استحکام حاصل کر سکتا ہے اور امارت اسلامی کی قوت کا راز بھی لوگوں کی اس معنوی خواہش کا احترام ہے، مغربی ممالک میں مقیم گنے چنے افراد کے علاوہ باقی تمام افغان عوام جمہوری نظام کے مسائل اور اس کی خامیوں سے بخوبی آگاہ ہیں، اسی وجہ سے آج تمام عوام اس نظام سے نفرت کرتے ہیں۔