امت کی عسکری طاقت داعش کے ذریعے کمزور کی جا رہی ہے

✍️ بریال فاتح

اسلام کسی بھی دوسرے دین و مذہب کی نسبت فتنے کے خاتمے، اسلام کی اشاعت اور اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر عسکری قوت رکھنے پر زور دیتا ہے۔ اسلام ہر حال میں اسلحہ بنانے، اعداد کرنے اور خود کو ہر دم تیار رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ دشمن ہم پر غالب نہ آنے پائے۔

اس کے ساتھ کفار کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ عسکری قوت کو ہر چیز پر فوقیت دے۔ لبرل ازم نامی نظریے کا، جو اس وقت عالمی نظام میں ایک غالب نظریہ مانا جاتا ہے، اور تمام ممالک اسی نظریے کے اصولوں کی بنیاد پر پیش رفت کر رہے ہیں، ماننا ہے کہ اگر آپ کے پاس طاقت ہے تو آپ زندگی گزار سکتے ہیں ورنہ معاشرہ جنگل کی طرح ہے، جس میں طاقتور کمزور کو کھا جاتا ہے۔ اس نظریے کا پورا زور طاقت کے حصول، حفاظت اور اس کو بڑھانے پر ہوتا ہے۔

جس طرح طاقت فتح و کامیابی کا باعث بنتی ہے، اسی طرح طاقت و قدرت کی عدم موجودگی زوال و تباہی کا باعث بن جاتی ہے۔ یعنی دشمن کی عسکری طاقت کے خاتمے کے ساتھ اس کی علمی، ثقافتی، سیاسی، معاشی اور دیگر مختلف صلاحیتیں بھی تباہ ہو جاتی ہیں۔

دیگر ممالک، اقوام اور مذہبی گروہوں کی نسبت ہمارے پاس بہت اعلیٰ فوج ہے، جو بہت بلند جذبوں اور شدید قربانیوں کے ساتھ جنگ کرتی ہے، جو دورانِ جنگ زندگی اور موت دونوں کو باعث فخر گردانتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری ہماری عسکری قوت کی خرابی کی خاطر ہمیں مختلف گروہوں میں تقسیم کرنے، نوجوانوں کو ضائع کرنے اور اہم قائدین اور عسکری کمانڈرز کو قتل کر کے ہمیں نقصان پہنچانے کی خواہاں ہے۔

وہ اسلامی تحریکات کے نام پر اپنے منصوبے کو آگے بڑھا رہے ہیں مثلا:

حزب التحریر کی ساری کوشش اس مقصد کے لیے ہے کہ عسکری قوت اور جنگ کی بجائے دعوت سے کام لیا جائے، اور یہاں نوجوانوں کو بھی ضائع کیا جائے اور جہاد سے خوف کھانے والے لوگوں کو ایک بہانہ بھی مل جائے۔ اگر کام حزب التحریر کے ذریعے سے نہ ہو سکے تو دشمن داعش نامی پراکسی دہشت گرد گروہ سے کام لیتا ہے، جو امت کی عسکری قوت کے خاتمے میں ان کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔

داعش اہم قائدین کی شہادت، جہاد کے نام پر قتل عام، امت میں جہاد کے حوالے سے بد اعتمادی، اور بالآخر خانہ جنگی کے ذریعے امت کو آپس میں ہی برسر پیکار کر کے ہماری طاقت کا خاتمہ چاہتی ہے۔ ان کی ان سرگرمیوں سے امت کا طاقتور ہونا تو درکنار وہ کبھی اپنے دفاع تک کے قابل نہیں ہو سکتی، اور موجودہ چھوٹی چھوٹی تحریکیں بھی ان کی وجہ سے کمزور پڑ جائیں گی۔

داعش کبھی بھی جہادی تحریکات کو شکست نہیں دے سکتی، بس قلیل مدت کے لیے ان کی توجہ ضرور بھٹکا دیتی ہے جس پر دشمن مزے اڑاتا ہے۔ داعش تو ہر قیمت پر تباہ کر ہی دی جائے گی لیکن فی الوقت جنگجوؤں کو مصروف کرنا، نوجوانوں کو ضائع کرنا اور جہاد کی بدنامی اس کے بدترین کرتوت ہیں۔

Author

Exit mobile version