خوارج نے ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف شدت پسندی اور سخت گیر رویے کا سہارا لیا ہے، وہ ہر دور میں مسلم حکومتوں کے خلاف رکاوٹ بنے اور اپنے غلط عقائد کے پھیلاؤ کے لیے کسی بھی قسم کی سازشوں اور عدم استحکام سے گریز نہیں کیا۔
ان کے ہاتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، علماء اور مجاہدین کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، اور آج بھی یہ امت کے اتحاد کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں، تو جو نقصان امت کو خوارج نے پہنچایا ہے وہ صلیبی اورعیسائی شاید نہ پہنچا سکے، اموی و عباسی خلافتوں اور مختلف اسلامی ادوار کے دوران، خوارج کی تلواریں اُس وقت دشمنان اسلام کے بجائے مسلمانوں کے خون سے رنگی ہوئی تھیں، اور ان کی شورشوں نے مسلمانوں کے درمیان تفریق اور انتشار پیدا کر رکھا تھا۔
اندلس کی فتح کے بعد تقریباً ۱۳۸ ہجری قمری تک وہاں مسلمانوں کی حالت معمول کے مطابق تھی، کسی قسم کا عدم استحکام یا عدم تحفظ نہیں تھا اور لوگ اپنی زندگی کے معاملات کو معمول کے مطابق چلا رہے تھے، اندلس میں اسلام کی عظمت و قوت کی بنیاد اتنی مضبوط تھی کہ کسی دشمن کی تلوار کا اثر وہاں نہیں پہنچ سکتا تھا۔ لیکن ۱۳۸ ہجری میں مسلمانوں کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے وہ خوارج جو شام سے بھاگ کر اندلس پہنچے تھے، اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے یہ منصوبہ بنانے لگے کہ ان بربریوں کو جو یوسف بن عبدالرحمن فہری کے ظلم سے تنگ آ چکے تھے، اپنے ساتھ ملا کر انہیں مسلمانوں کے اجتماع سے منحرف کرکے افراطیت اورسخت گیر نظریات کی طرف راغب کریں۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ خوارج کی شدت پسندی اور سخت گیر رویوں کی کوششیں اتنی تیز تھیں کہ اس وقت اندلس میں اسلام کے مکمل طور پر ختم ہونے کا خطرہ تھا۔
خوارج نے اندلس کے معتبر اور قابل علمائے کرام کو منظر سے ہٹا دیا اور لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے مختلف فتنے پھیلائے، تاہم کچھ وقت گزرنے کے بعد، عظیم فاتح عبدالرحمن ابن معاویہ بن هشام الداخل رحمہ اللہ، جو اندلس میں اموی خاندان کے آخری حکمران تھے، کی آمد کے ساتھ ہی خوارج اور دیگر فتنے ختم ہوگئے اور اسلامی معاشرہ اور اندلس خوارج کے فتنے سے نجات پا گئے۔