ایک ناکام ریاست کی ایک اور ناکام کوشش

✍️ عبدان صافی

پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جس کی باگ ڈور روزِ اوّل سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی باقیات یعنی فوج کے ہاتھوں میں رہی۔ خصوصا اس کی خارجہ پالیسی جی ایچ کیو میں نااہل جرنیلوں کی زیر نگرانی بنتی رہی جس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان تنہائی اور مشکلات کا شکار رہا اور جس کا خمیازہ ہمیشہ پاکستانی عوام نے ادا کیا۔

گیارہ ستمبر کے بعد ایک نااہل جرنیل پرویز مشرف نے ملک کو بچانے کے نام پر ملک کو تباہی کی راہ پر ڈال دیا اور برادر مسلمان ملک پر چڑھائی کے لیے اپنے آقا کو ایسا تعاون فراہم کیا جس کی توقع خود اس کے آقا امریکہ کو بھی نہیں تھی۔ اس نالائق جرنیل مشرف کے احمقانہ فیصلے نے پاکستان کی تباہی کی بنیاد رکھی اور ملک میں ایک نہ رکنے والی جنگ کا آغاز ہوگیا جو تاحال جاری ہے۔

پاکستانی فوج اور اس کے جرنیلوں کی شاید یہ اب ایک رسمی پالیسی بن چکی ہے کہ وہ اپنی ناکامی کی ذمہ داری اٹھانے کی بجائے اس کا قصور وار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔ مگر تھوڑی سی بھی کامیابی ملے تو اس کا کریڈٹ خود لے کر اپنے قوم کو جھانسا دیے رکھتے ہیں۔ ۱۹۷۱ء کی جنگ میں ملک کو دو ٹکڑے کرنے کا مرکزی کردار فوج تھی، مگر بنگال میں واضح شکست کے باوجود پاکستانی فوج کے جرنیلوں نے اپنی کارنامے فخریہ انداز میں تحریر اور بیان کیے، جبکہ ناکامی کو ملک کی سیاسی قیادت اور اپنے حریف ملک ہندوستان کے سر ڈال دیا۔ ۱۹۹۹ء کی کارگل جنگ میں شیر بننے کی کوشش میں مار کھا کر آگئے تو اپنے ہی فوجیوں کی لاشوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں کشمیری مجاہدین کا نام دے کر اپنی ناکامی سے فرار اختیار کرنے کی کوشش کی ۔

عین اسی روش پر چلتے ہوئے امریکہ کی جنگ میں ایک ٹیلیفون کال پر سجدہ ریز ہو جانے والی فوج نے جہاں ملک کے طول و عرض میں آپریشنز کرنے کے بعد امن و آمان کے قیام اور دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے کرکے ملکی اور عالمی سطح پر کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔ مگر جب اصلی صورتحال سامنے آئی اور ان کی جعلی کامیابی کا ڈراپ سین ہوا تو پلٹا کھا کر اب ہمسایہ ممالک بالخصوص افغانستان پر اپنی ناکامی کا الزام ڈال رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ افغانستان سے پاکستان کے اندر دہشت گردی ہو رہی ہے، یا افغانستان جہادی تنظیموں کا گڑھ بن گیا ہے۔

اگر ہم پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ دوسرے ممالک میں مداخلت اور بدامنی کے لیے دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی وہ خود کرتا ہے اور اس حوالے سے وہ عالمی سطح پر شہرت کا حامل ہے۔

کشمیر میں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ایک درجن سے زیادہ جہادی تنظیمیں بنائیں اور ہندوستان میں بدامنی کے لیے انہیں استعمال کیا، جن کے ہندوستان کے اندر خونریز حملے آن ریکارڈ موجود ہیں۔

پاکستان کے پاس نہ تو اس کا کوئی ثبوت ہے اور نہ یہ کہنے کا کوئی اخلاقی جواز کہ ان پر حملے افغانستان سے ہو رہے ہیں، کیونکہ پاکستان میں برسرپیکار جہادی اور قوم پرست تنظیموں کے پاس وسیع علاقہ موجود ہے جس میں بیٹھ کر وہ اپنی کاروائیوں کو منظم کرکے حملے کر سکتے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ قوم پرست تنظیموں کی موجودگی سے واضح ہے کہ سب کچھ ان کے ملک کے اندر سے ہو رہا ہے، اس لیے فول پروف سیکیورٹی کے دعووں کے باوجود وہاں چینی شہریوں پر حملے ہو رہے ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان کی ملک کے اندر گلی کوچوں میں فوج کے ساتھ دست بدست لڑائیوں میں افغانستان کا ہاتھ کیسے ہوسکتا ہے؟ ریاستی اداروں کے اس طرح کے حقائق کے خلاف پروپیگنڈے کو واحد مقصد پاکستانی عوام کو بے وقوف بنانا اور بلوچستان اور خیبر پختونخواہ پر اپنی کمزور گرفت کو ٰ”سب اچھا ہے” کے طور پر دکھانا ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کی ریاستی پالیسیوں اور مظالم کی وجہ سے ہی وہاں کی عوام ان کے خلاف ہوگئی ہے اور حقوق کی یہ جنگ اب آزادی کی جنگ بن چکی ہے، جس کو سنبھالنا پاکستانی اداروں کے لیے ممکن نہیں۔ اس لیے وہ پروپیگنڈے کا سہارا لے کر افغانستان اور دیگر ہمسایہ ممالک پر الزام لگا رہے ہیں۔

پاکستان نے ماضی کی غلط پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کو کاونٹر کرنے اور امارت اسلامی افغانستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے داعش جیسی خارجی اور عالمی دہشت گرد تنظیم کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اور ان کی قیادت کو نہ صرف وہاں تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے بلکہ لاجسٹک سپورٹ سمیت فنڈنگ بھی کی جا رہی ہے۔ خیبر ، باجوڑ ، دیر اور بلوچستان میں ریاستی اداروں کی سرپرستی میں داعش کے قائم مراکز اب ایک واضح حقیقت ہیں جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا اور اس حوالے سے ہم نے پہلے بھی شواھد اور حقائق دنیا کے سامنے پیش کیے ہیں۔

پاکستانی اداروں نے حال ہی میں "جھت الرباط” کے نام سے ایک اور جعلی تنظیم لانچ کرکے امارت اسلامیہ افغانستان کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک اور نیا محاذ کھولنے کی کوشش کی ہے، جھت الرباط نامی یہ پروپیگنڈہ تنظیم جس کا نہ سربراہ معلوم اور نہ ارکان، جی ایچ کیو کے یخ بستہ کمروں میں بیٹھے فوجی افسران کی احمقانہ کاوش ہے۔

پاکستانی ریاست کے امارت اسلامیہ افغانستان کے خلاف پروپیگنڈہ مشن سے ان کے ہاتھ کچھ آنے والا نہیں ہے کیونکہ حقیقت لاکھ چھپانے پر بھی نہیں چپھتی اور افغانستان اب افغانستان کے حقیقی وارثین کے ہاتھوں میں ہے۔

Author

Exit mobile version