بین الاقوامی برادری تاجکستانی شہریوں سے لاحق ممکنہ خطرات کی جانب متوجہ ہو گئی

امریکی میڈیا نے گزشتہ ہفتے خبر نشر کی کہ تین ریاستوں سے آٹھ تاجکستانی داعش کے ساتھ تعلق کے شبہے میں گرفتار ہوئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق، یہ لوگ امریکہ جنوبی سرحد کی جانب سے پناہ گزینوں کے بھیس میں داخل ہوئے اور غالبا ان کا منصوبہ داعش کے زیر انتظام حملے کرنے کا تھا۔

حال ہی میں نیو یارک پوسٹ نامی ایک امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ رواں سال ۲۰۲۴ء کے پچھلے پانچ ماہ میں کم از کم ۵۰۰ تاجکستانی شہری امریکہ میں مختلف شبہات میں گرفتار کیے گئے ہیں۔ اخبار نے مختلف شواہد کی بنیاد پر لکھا کہ پچھلے ساڑھے تین سالوں میں تقریبا ۱۵۰۰ تاجکستانی شہری امریکہ تارکین وطن کے نام سے داخل ہوئے ہیں لیکن اب ان سب کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور ممکن ہے انہیں ڈی پورٹ کر دیا جائے۔

نیو یارک پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں تاجکستان کو داعش کی بھرتی کا مرکز اور منبہ قرار دیا اور کہا کہ داعش دیگر ممالک کی طرح اب امریکہ میں بھی اس ملک کے شہریوں کے ذریعے حملے کرنا چاہتی ہے۔

امریکہ میں تاجکستانی داعشیوں کی گرفتاری کی خبریں ایسے وقت میں آ رہی ہیں جب جرمنی میں بھی خوارج کی طرف سے تاجکستانی شہریوں کے ذریعے حملوں کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

گزشتہ چند ماہ سے عالمی برادری تاجکستانی شہریوں کی جانب سے لاحق ممکنہ خطرات کی جانب متوجہ ہے اور کوشش میں ہے کہ داعش کے ہاتھوں اس ملک کے شہریوں کا استحصال اور سنگین واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔ اسی طرح روس نے ماسکو حملے کے بعد تاجکستانیوں کے لیے اپنی سرزمین پر رہنے، کام کرنے اور سفر کرنے کے حوالے سے شرائط سخت کر دیں ہیں اور ترکی نے بھی ان کے لیے ویزے کی چھوٹ ختم کر دی ہے۔ حالیہ پیش رفت اور صورتحال نے مغرب کو بھی مجبور کر دیا ہے کہ تاجکستان کی آمرانہ و استبدادی حکومت اور اس کے شہریوں کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے۔

Author

Exit mobile version