۲۰۱۸ء میں داعش نے اپنے ایک سابق رکن کو مصر کے صحرائے سینا میں اس الزام میں قتل کردیا کہ اس نے حماس کے مجاہدین کو ہتھیار بھیجے تھے اوراس طرح داعش نے صہیونی حکومت کے دشمنوں کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا۔
جاہل خوارج نے دینی مسائل میں اپنی جہالت اور تنگ نظری کی وجہ سے جہادی تحریک حماس پر بے بنیاد الزامات لگائے اور اپنے باطل دلائل کے ذریعے اس تحریک پر تکفیرکا ٹھپہ لگا ڈالا۔
اس وقت صہیونی حکومت کے خلاف حماس مجاہدین کا جنگ نہ کرنا، خوارج کی طرف سے ان کی تکفیر کی ایک بڑی وجہ تھی کیونکہ داعش کا دعویٰ تھا کہ حماس کفار کے ساتھ تعاون اور فلسطین پر صہیونی قبضے کو جواز فراہم کرتی ہے۔
۷ اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ نامی جنگ کا آغاز ہوا جس نے مقبوضہ علاقوں کے مکینوں کو حیران کر دیا، اسی طرح حماس نے اس کاروائی کے ذریعے خوارج کے گمراہ پیروکاروں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا، کیونکہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن حماس مجاہدین صہیونیوں کے خلاف فدائی کاروائیاں بھی کریں گے اور دو ارب مسلمانوں کی مقدس سرزمین کے دفاع کے لیے اٹھ کھڑی ہو گی۔
خوارج کی گمراہی اس قدر ہے کہ ۷ اکتوبر کی جنگ کے بعد بھی انہوں نے اپنے جھوٹے الزامات کو غلط نہ کہا اور اپنے جھوٹے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے، ان کے بے بنیاد دلائل اور الزامات صرف نمائشی تھے کیونکہ اب اس مردود گروہ کے چہرے سے نقاب اتر چکا ہے، اس کی حقیقت سب پر آشکارا ہو چکی ہے۔
حماس تحریک صہیونی حکومت کے خلاف بنیادی منصوبے بنا کر ایسا کرنے میں کامیاب رہی کہ کفری دنیا کو جس سطح کی توقع تھی اس سے زیادہ مزاحمت کر ڈالی اور آخر کار صہیونی حکومت کو تدریجی موت کے منہ میں دھکیل دیا۔
اب صہیونیوں کے ظالمانہ حملوں اورنسل کشی کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، پھر بھی اپنے قیدیوں کو رہا کرنے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، اس کے برعکس، صہیونی حکومت کی مسلح افواج اپنے جدید جنگی ساز و سامان کے باوجود غزہ کے جنگی دلدل میں دن بدن مزید دھنستی چلی جا رہی ہیں۔
حماس کے مجاہدین کی استقامت، امت کے جوانوں کے لیے ایک مثال بن گئی، ان کے قائدین کی شہادت سب کے لیے باعث افتخار بنی، یہ تمام آزادی پسندوں کے لیے مشعل راہ بن گئی اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گئی۔
جی ہاں! تحریک حماس کے مخلص مجاہدین اورمخلص جنگجوؤں کو اللہ تعالی نے عزت بخشی اور ان کے تکفیریوں یعنی گمراہ خوارج کو ذلیل و خوارکیا، اللہ کا شکر ہے کہ اب سب پر واضح ہو گیا ہے کہ صہیونیوں کا دوست کون اور ان کا دشمن کون ہے؟