داعشیوں کی غداری اور خیانت عام ہو چکی، کیونکہ وہ اپنا رعب و دہشت قائم کرنے کے لیے کسی بھی قسم کے جرم سے دریغ نہیں کرتے۔
اپنے جرائم کو مذہبی لبادہ اوڑھانے کے لیے، مسلمانوں پر کفر کےٹھپے لگانا اور انہیں قتل کرنا داعش کے اعمال کا عنوان رہا ہے، جیسا کہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ کہ جب ابن ملجم نے ان پر کفر کا ٹھپا لگایا اور پھر شہید کر دیا۔
یہ حقیقت ہے کہ آج داعش ہر کسی کو جھوٹے اور بے بنیاد الزامات پر شہید کرتی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خوارج العصر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانے کے خوارج کے پیروکار ہیں، البتہ خوارج العصر کے کرتوت اور ان کے جرائم اوّلین خوارج کے جرائم سے کئی گنا زیادہ اور سخت ہیں۔
اگر خوارج کو توبہ کا موقع فراہم کیا جائے تو یہ ان کے لیے مشکل بن جائے گی اور انگلیوں پر شمار کیے جانے کے قابل لوگ ہی ایسے ہوں گے جو ان شیطانی افکار سے متنفر ہوں گے اور اصلاح کا راستہ اپنائیں گے۔
وہ ہمیشہ اہل اسلام کی تباہی و بربادی کی فکر کرتے ہیں اور درحقیقت وہ طاغوتی حدود کے محافظین ہیں۔
اس کی واضح مثال غزہ کے مجاہدین کو اسلحہ پہنچانے میں تعاون کی آڑ میں مصر کے شمالی سینا میں درجنوں افراد کی شہادت ہے۔
داعش کا ایک گھناؤنا فعل یہ تھا کہ ایک مجاہد پر اپنی رسمی نشریات میں حماس کے مجاہدین کے ساتھ تعاون کا الزام لگایا اور اس کا سر قلم کر دیا۔ اس کے علاوہ اس نے القاعدہ کے مجاہدین کو صحرائے سینا سے بالکل ختم کر دیا جس کی وجہ سے آج اسرائیلی حکومت مظلوم فلسطینیوں کے خلاف ماضی سے کئی گنا زیادہ جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔
خوارج نے پوری تاریخ میں جرم و خیانت کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا، اس لیے ان کے ساتھ صرف ایک ہی حل کی بات ہو سکتی ہے، اس لیے کہ نہ تو ان کی اصلاح جیلوں میں ممکن ہے اور نہ ہی دعوت سے (الا ما شاء اللہ)، صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تلوار ہی ہے جو مسلمانوں اور اس فرقے کے درمیان فیصلہ کر سکتی تھی، ان کا علاج صرف اور صرف تلوار ہے اور بس!