جہاد: امت کے زخموں کا واحد مرہم

ابو جاويد

یہ مغرب کی ہی چالبازیوں کا نتیجہ تھا کہ جہاد کو مسلمانوں کے ذہنوں میں دہشت گردی اور وحشت کے طور پر پیش کیا گیا۔ اسلامی نظام کے احیاء کے لئے لڑنے والے مجاہدین کو جنہیں محسن کے طور پر پہچانا جانا چاہیے تھا، مسلمانوں کے ذہنوں میں دہشت گرد کے طور پر متعارف کرایا گیا۔

یہ مغربی منصوبوں میں سے ایک تھا جسے مکمل طور پر عملی جامہ پہنایا گیا۔

یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح حقیقت ہے کہ جہاد واحد راستہ ہے جس سے کفار اور ان کے آلہ کار سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنے زوال اور انحطاط کے تلخ تجربات جہاد کے میدانوں اور سخت معرکوں میں چکھے ہیں۔

وہ وقت جب امت عروج کی بلندیاں چھو رہی تھی، اسی جہاد کی بدولت امت مسلمہ کی عظمت اور شان و شوکت کا ایک زمانہ معترف تھا۔ تاریخ اسلام میں جہاں بھی ہماری عظمت ودبدبہ دکھائی دیتا ہے، وہ جہاد ہی کے برکت سے ہے۔

مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد جب اسلامی حکومت قائم کی تو اس کی حفاظت کے لیے اور اسلامی نظام کی حدود کو بڑھانے کے لیے انہوں نے غزوات کا ایک ایسا سلسلہ اور بنیاد شروع کی، جو رہتی دنیا تک ہر نظام وحکومت کے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔

لیکن اب بدقسمتی یہ ہے کہ غزوات کا یہ وسیع باب امت کی نوجوان نسل سے چھپایا گیا ہے، انہیں نہ غزوات کی تفصیل بتائی گئی، نہ ہی ان کی تدریس کی گئی اور نہ ہی اب انہیں اس حوالے سے کوئی تلقین کی جاتی ہے۔

اہل قلم وقرطاس پر فرض ہے کہ وہ اس امانت کو ادا کریں اور اس پیغام کو امت مسلمہ کے ہر فرد تک پہنچائیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل مصلحت اور حکمت پر مبنی تھا۔ اگر غزوات کا تجزیہ کیا جائے، تو یقین کریں کہ فی زمانہ بہت سے شبہات دور ہو جائیں گے، اسی طرح جو لوگ امارت اسلامی کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں، ان کی زبانیں بند ہو جائیں گی، ان کے تمام دعوے باطل ثابت ہوں گے۔

میرا ارادہ ہے کہ اس حوالے سے مسلسل لکھوں، ان شاء اللہ! میں مسلسل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوات کو آپ تک پہنچاؤں گا، اللہم وفقنی لما تحب وترضاہ!

Author

Exit mobile version