حافظ نعمت اللہ "نیکمل”

زندگی اور جدو جہد کا مختصر جائزہ

بیدار ضمیر، پاکیزہ عقیدے اور نبوی اخلق کا نمونہ، شہید سعید حافظ نعمت اللہ "نیکمل” ولد مستری سید غلام صاحب نے ۱۹۹۵ء میں صوبہ وردگ، ضلع سید آباد کے گاؤں ملی خیل کے ایک جہاد سے محبت رکھنے والے، دیندار اور پرہیزگار گھرانے میں اس فانی دنیا میں آنکھ کھولی۔

ابتدائی دینی تعلیم اپنے گاؤں کی مسجد کے امام سے حاصل کی۔ بچپن سے ہی نماز، جماعت اور عبادت کے بہت پابند تھے، کم عمری میں ہی مدرسے چلے گئے اور قرآنِ عظیم الشان کا حفظ شروع کیا، اللہ تعالیٰ نے انہیں اس عظیم مقام سے سرفراز کیا اور بہت جلد ۲۰۱۲ء میں قرآن کریم کو حفظ کرنے کا شرف حاصل کیا۔

حفظ کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی دینی تعلیم بھی جاری رکھی، اپنی تمام عمر ایک معصوم، پاک اور مقدس مقام (مدرسے) میں گزاری، جہاں اللہ کے قانون کی تدریس اور دنیا میں اس کے قیام و نفاذ کے حوالے سے نوجوانوں کی تربیت کی جاتی ہے۔

ملک کفری قبضہ گروں کے تسلط میں تھا، امت مسلمہ کو گمراہ کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے تھے اور انہیں طاغوت کی جانب رہنمائی کی جا رہی تھی۔

نیکمل بھی آہستہ آہستہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہے تھے، دشمن کی وحشیانہ حرکتیں دیکھ کر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انہیں یوں رکے رہنا امت کے ماتھے پر سیاہ داغ نظر آنے لگا۔ تب انہوں نے طاغوت کے خلاف مدرسے سے ہی خفیہ طور پر جہاد شروع کر دیا۔

نیکمل شہید تقبلہ اللہ ایک باصلاحیت، بہادر اور تجربہ کار مجاہد تھے اور اپنے صبر و استقامت کی وجہ سے ساتھیوں میں مشہور تھے۔

جہادی زندگی کے دوران بہت سے چھاپوں، بمباریوں، گھات لگا کر کیے گئے حملوں اور چھاپہ مار کاروائیوں میں موجود رہے اور بڑی جوانمردی سے مورچہ سنبھالے رکھا۔

ایک بار سخت زخمی ہو گئے۔

یوسف خیل کا پرانا گاؤں، پچھلے بیس سال کے قبضے کے دوران جس کے مکین اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے تھے۔ گھر تباہ، دروازے ٹوٹے ہوئے اور ہر طرف گولیوں کے نشان دکھائی دے رہے تھے۔

اس گاؤں میں سڑک کے کنارے ایک گھر میں کرائے کے فوجیوں کی ایک چوکی تھی۔ ہم اس چوکی پر لیزر دوربین لگی گن سے کاروائی کر رہے تھے۔ کاروائی تو بہت اچھی ہوئی لیکن رات خطرناک تھی۔ ایک طرف سردی کا موسم تھا، برف باری ہو رہی تھی، سخت سردی تھی جبکہ دوسری طرف چھاپے والے جہاز، ڈرون اور اسی طرح دیگر خطرات بھی لاحق تھے۔

ہم جلد از جلد علاقہ چھوڑنا چاہتے تھے۔ ہم نکلنے ہی والے تھے۔ ہم ایک گھر کے ملبے کے بیچ میں آرام کی خاطر بیٹھے ہوئے تھے۔ نیکمل اور ان کے ساتھ دو دیگر ساتھی گھر کی ایک کھڑکی میں کھڑے جنگ کی صورتحال کا جائزہ لے رہے تھے۔ میں ان کے پیچھے بیٹھا تھا کہ ایک تیز دھمکاے کی آواز میرے کانوں میں گونچی اور پھر میں نے اللہ اکبر کا نعرہ سنا اور پھر میں کیا دیکھتا ہوں کہ ان میں سے ایک فرد پیچھے گر گیا، میں اس کی طرف دوڑا، میں نے پوچھا کون ہے یہ! ایک ساتھی نے آواز لگائی، نیکمل ہے۔ آؤ اسے اٹھاؤ! ہم نے اسے اٹھایا اور پھر ایک جگہ تک انہیں لے گئے۔ ہم ایک مسجد تک پہنچ گئے۔ رات کا اندھیرا تھا، ہم نے مسجد کی لائٹ جلائی اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا: لگتا ہے ہم یہاں مرنے کے لیے تنہا رہ گئے ہیں!

کچھ دیر بعد محکمہ صحت کے اہلکار ساتھی بھی پہنچ گئے اور سینے کے دائیں جانب بڑے زخم کی مرہم پٹی کی لیکن خون جسم کے اندر بہہ رہا تھا۔ فوری علاج کی خاطر ہم تنگی ہسپتال کی طرف روانہ ہو گئے۔ لیکن اونخی پہاڑ کا راستہ بند تھا اس لیے ہمیں جگتو کے راستے پر جانا پڑا۔

راستہ طویل تھا اور اس دوران وہ کئی بار بے ہوش ہوا جب ہم ہسپتال کے قریب تھے تو وہ ہوش میں آگیا، حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا: اس ماں کا تو دل ٹوٹ جائے گا! وہ اپنی اس غریب ماں کا ذکر کر رہا تھا جس نے اللہ کے دین کی خاطر اپنا ایک اور بیٹا قربان کر دیا تھا۔ یہ بات کہنے کے بعد وہ پھر سے بے ہوش ہو گیا، اور اس طرح وہ ہسپتال پہنچے۔

ڈاکٹر آگئے اور اسے آپریشن تھیٹر میں لے گئے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے آپریشن کامیاب ہو گیا کچھ عرصہ ہسپتال میں داخل رہنے کے بعد نیکمل صحت یاب ہو کر پھر سے گرم محاذوں کی جانب واپس چلا گیا اور پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ارادے اور عزم کے ساتھ لڑنے لگا۔

رمضان میں انہوں نے زخمی حالت میں بھی ہمیں مکمل قرآن کریم سنایا، کبھی کبھی ان کے زخموں سے ایسے درد اٹھتا تھا کہ کہ جماعت کرواتے وقت ان کی آواز دھیمی ہو جاتی تھئ اور ٹھیک سے سنائی نہیں دیتا تھا۔

راہ جہاد کی مشکلات و مصائب کو انہوں نے کشادہ سینے کے ساتھ برداشت کیا، یہاں تک کہ افغانستان میں اسلامی نظام قائم ہو گیا، اور عوام نے سکھ کا سانس لیا لیکن نیکمل شہید تقبلہ اللہ کا کمان سے نکلے ہوئے تیر کی مانند پھر واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، اسلامی نظام کی فوجی ترتیبات میں دسویں شعبے کے آپریشنل یونٹ میں ایک گروپ کی ذمہ داری دی گئی، لیکن نیکمل شہید تقبلہ اللہ نے ایک سرفروش سپاہی کی ماندد اللہ کے دین کے دشمنوں اور خوارج کو ختم کرنے کی طرف توجہ مرکوز رکھی، بہت کم عرصے میں بہت سی کاروائیوں میں حصہ لیا اور کثیر تعداد میں خوارج مردار کر کے انہیں ان کے اعمال کی سزا دی۔

آخری کاروائی کا قصہ ایک ساتھی نے اس طرح بیان کیا:

جب داعشی خوارج (کلاب النار) نے ایک نوجوان مجاہد مصباح جان شہید کو انتہائی بے دردی اور ظلم کے ساتھ شہید کر دیا اور پھر اس کی ویڈیو انٹرنیٹ پر نشر کر دی، تاکہ مجاہدین کے درمیان خوف پیدا کر سکیں، تو امارت اسلامیہ کی زیرک انٹیلی جنس کی سرویلنس رپورٹس کی بنیاد پر اس ناپاک گروہ کا تعقب شروع کیا گیا، سب سے پہلے مزار شریف شہر میں چھاپہ مارا گیا، گھر میں (جو ان کا خفیہ مرکز تھا) موجود خوارج کو جہنم واصل کر دیا گیا، بعض جو دیگر صوبوں سے بھی رابطے میں تھے وہ بھی سرویلنس کے تحت تھے۔

اس بنیاد پر ہمارے یونٹ نے بھی مزار شریف کی جانب حرکت شروع کی، تمام ساتھیوں کے دلوں میں انتقام کا جذبہ جوش مار رہا تھا، مزار شریف میں ایک دن کے لیے رکے، ابھی ٹھیک سے سانس بھی نہیں لیا تھا کہ مرکز کی جانب سے اطلاع ملی کہ صوبہ بغلان کی جانب روانہ ہوا جائے! وہاں داعشی خوارج کے ایک سیل کا پتہ لگا ہے اور اس کے خلاف کاروائی جاری ہے۔ ہم نے پھر سے سفر شروع کیا اور بہت کم وقت میں ہم صوبہ بغلان پہنچ گئے، جب ہم جنگ کے علاقے میں پہنچے اس وقت خوارج سخت محاصرے میں تھے، ہمارے ساتھ فدائی ساتھیوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم خوارج کے گھروں میں بارودی سرنگین لے جائیں اور وہاں انہیں پھاڑ کر رکاوٹوں کو دور کریں۔ نیکمل شہید تقبلہ اللہ اور دو دیگر ساتھی اس کام کے لیے تیار ہو گئے، کنستر میں بنی بارودی سرنگوں کو اٹھایا اور گھروں کو دھماکے سے اڑا دیا اور انہیں تباہ کر دیا، بس کچھ حصہ ہی ثابت باقی رہا اور وہاں سے مذاحمت شروع کی گئی۔

نیکمل شہید تقبلہ اللہ واپس اپنی جگہ پر آ گئے راکٹ لانچر اٹھایا اور اس جانب فائر کر دیا، وہ جگہ گرد اور دھوئیں میں چھپی ہوئی تھی، نیکمل اور دو اور ساتھی اس جگہ کے بالکل سامنے کھڑے تھے، فائر کرنے کی وجہ سے ان کی جگہ واضح ہو گئی اور وہ دشمن کے نشانے پر آگئے، دشمن نے ایک خونی برسٹ ان کی طرف مارا، جس کے نتیجے میں تین پھول سرمئی مٹی میں گر گئے۔

برسوں کی تھکا دینے والی جدوجہد کے بعد ۲۴ ذوالحجہ ۱۴۴۳ ھجری بمطابق ۱۱ جولائی ۲۰۲۲ء صوبہ بغلان کے شہر پلخمری میں داعشی خوارج کے ایک خفیہ مرکز پر کاروائی کے دوران تین ساتھی ایک ساتھ شہادت کے عظیم مقام کو پا گئے۔

نحسبہ کذالک واللہ حسیبہ

شہید کا نکاح

نیکمل شہید نے ایک ایسے دن اپنی روح اس کے مالک کے سپرد کر دی جو اس کے گھر والوں نے نکاح کے لیے جبکہ اس کے خالق نے شہادت کے لیے منتخب کیا تھا۔ اس کی شہادت کی خبر جب گھر پہنچی اس کے حوالے سے اس کے بڑے بھائی کچھ یوں بیان کرتے ہیں: سہ پہر کا وقت تھا اور سورچ کی شعائیں سمٹتی جا رہی تھیں، اگرچہ گھر میں شہید بڑے بھائی کا غم اور اداسی موجود تھی، لیکن نئی شادی کے حوالے سے نہایت خوش تھے، ہماری سب بہنیں گھر آ چکی تھیں اور انتظار میں تھیں کہ جائیں اور دو پاکیزہ دلوں کو آپس میں جوڑ دیں۔ میں نے موبائل اپنی جیب سے نکالا اور نیکمل کا نمبر ڈائل کیا، کچھ وقت کے بعد اس کے ایک ساتھی نے جواب دیا، کہ نیکمل سو رہا ہے، میں نے اصرار کیا کہ اس سے بات کرنا چاہتا ہوں، کچھ وقت کے بعد اس نے پریشان آواز میں مجھ سے کہا: نیکمل شہید ہو چکا ہے۔

پتہ نہیں سارا منظر میرے سامنے کیسے گزرا، میں نے جا کر وضو کیا، قرآن کریم اٹھایا اور تلاوت شروع کر دی، والدین اور گھر والوں کے لیے صبر جمیل کی دعا کی، میرے پورے جسم پر لرزا تاری تھا، میرا رنگ فک ہو چکا تھا، میرے جسم پر میرا قابو نہیں تھا، گھر کے افراد جوانی میں ہی شہید ہونے والے نوجوان کی شادی کی رسوم کے لیے جا رہے تھے، میں نے دل میں درد کا بہانہ کیا، کہ میرے دل میں درد ہے آپ لوگ کچھ دیر صبر کرں۔ کچھ دیر ہ گزری تھی کہ ہیلی کاپٹر کی آواز آنے لگی، اچانک وہ گھر کے قریب اتر گیا اور نیکمل شہید کا جنازہ نیچے اتار دیا۔ جو حال اس کے بعد ہمارے گھر میں میرے والدین اور بہنوں کا تھا اسے میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا، ایسا ماتم شروع ہوا کہ رونے اور چیخنے کی آوازیں آسمان تک جانے لگیں۔

Author

Exit mobile version