خطے کی سکیورٹی صورتحال اور پاکستان کی دو رخی پالیسی  

#image_title

عاطف مشعل

پاکستان میں ہونے والے حالیہ حملوں کے اصلی ذرائع اور عوامل کے حوالے سے پاکستانی اعلیٰ حکام کے بیانات تعجب انگیز اور حیران کن ہیں۔ خاص طور پر ان حملوں کا تعلق اور ربط افغانستان کے ساتھ جوڑنے کے حوالے سے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے بیانات سراسر بے بنیاد الزامات اور دعوے ہیں۔

روئیٹرز نیوز ایجنسی جیسے معتبر ادارے اور ادارہ المرصاد کی طرف سے تصدیق شدہ رپورٹس کے مطابق داعش خراسان کا سربراہ شہاب المہاجر اب بھی پاکستان میں بلوچستان کے علاقے میں مقیم اور سرگرم ہے۔ ان میڈیا اداروں کی رپورٹس کے مطابق شہاب المہاجر افغانستان میں زخمی ہونے اور شدید زخم کھانے کے بعد پاکستان میں بلوچستان کے علاقے کی طرف فرار ہو گیا اور پھر وہاں سے اس نے اپنی دہشت گردانہ کاروائیاں شروع کر دیں۔

اسی طرح بلوچ نیشنل موومنٹ کے سربراہ ڈاکٹر نسیم بلوچ نے جنیوا میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "بلوچستان میں عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے کیمپس کی موجودگی تشویشناک ہے۔” ڈاکٹر نسیم بلوچ نے مذکورہ اجلاس میں واضح طور پر کہا کہ "بلوچستان میں داعش کے کیمپس کو پاکستانی فوج کی جانب سے مدد مل رہی ہے اور یہ پاکستانی فوج کی براہ راست نگرانی اور تعاون سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔”

بین الاقوامی میڈیا اور خطے کے سیاستدانوں کی یہ معلومات اور پر وثوق باتیں، ان بودے اور بے بنیاد دعوں کو رد کرتی ہیں جو پاکستانی حکام کی جانب سے افغانستان سے دہشت گرد سرگرمیوں کو منسوب کرنے کے حوالے سے کیے جاتے ہیں۔

اس طرح کی بے بنیاد تہمتیں اور جھوٹے الزامات لگا کر پاکستانی حکام اپنے ملک کی داخلی سکیورٹی کی خامیوں اور کمزوریوں سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہ رہے ہیں یا اپنے اسٹریٹیجک مقاصد کے لیے ہمسایہ ممالک اور عالمی برادری کے ذہنوں میں افغانستان کی موجودہ حکومت کے حوالے سے بدگمانی اور منفیت پیدا کرنا چاہ رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایسے اشارے بھی ملے ہیں کہ پاکستانی فوج اور بعض سیاسی حلقے، جو ممکنہ طور پر مغربی مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں، چینی کمپنیوں کے خلاف مسلح حملوں میں ملوث ہیں۔

ممکن ہے یہ کاروائیاں پاکستان کو عالمی طاقتوں کی رقابت و مسابقت کے مرکز میں تبدیل کرنے کے وسیع ایجنڈے کا شاخسانہ ہوں۔

پاکستانی فوج اور سیاست دانوں کا یہ مغرب نواز ٹولہ مغرب کے خفیہ اشاروں پر چل رہا ہے تاکہ بڑے اقتصادی منصوبوں بالخصوص چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر عمل درآمد میں مشکلات کھڑی کی جائیں۔

پاکستا کو جہاں سکیورٹی مشکلات کے ساتھ شدید معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے، وہیں ایسے مفروضے بھی پائے جاتے ہیں کہ داعش کے منصوبے کی فنڈنگ کرنے کی ایک وجہ یہی شدید اقتصادی مسائل کی مجبوریاں ہیں، تاکہ خطے میں داعش کے منصوبے پر عمل درآمد کر کے پاکستانی جرنیل آئی ایم ایف اور دیگر مغربی اقتصادی و معاشی تعاون سے مستفید ہو سکیں۔

داعش کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا اور خطے میں داعش کو ایک محفوظ ورکنگ کوریڈور مہیاء کرنا صرف افغانستان اور سی پیک کے خلاف اقدام نہیں بلکہ وسطی ایشیاء، روس اور ایران کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔

پاکستانی جرنیلوں اور سیاست دانوں کا یہ اقدام صرف افغانستان کے ساتھ متصادم نہیں، بلکہ افغانستان کے پڑوس میں تمام خطے، جس میں روس، چین اور ایران شامل ہیں، کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ کیونکہ مغرب اب داعش کی کسی ایک ملک کے خلاف نہیں بلکہ خطے کے متعدد ممالک کے خلاف فنڈنگ کر رہا ہے اور اسے مضبوط کر رہا ہے۔

پاکستانی جرنیلوں اور سیاست دانوں کی جانب سے اس گروہ کی فعالیت اور مغرب کے ایجنڈے کے مطابق مغربی منصوبے پر عمل درآمد میں نہ تو پاکستانی عوام کے مفاد کو اور نہ ہی خطے کے ممالک کے مفادات کو مد نظر رکھا گیا، اپنی ہی عوام کے ساتھ اس نازیبا اور دو رخے چلن کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پاکستانی عوام میں رد عمل اور غصہ پیدا ہو گا، یہ بہت گہرا اور سنگین خطرہ ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کو نا صرف اپنی عوام کے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ خطے کے ممالک کی دشمنی اور مخالفت بھی مول لینی پڑے گی۔

اسی طرح اس گروہ کی کوشش ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے نام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، شمالی پاکستان (گلگت بلتستان و چترال) اور شمال مشرقی افغانستان (کنڑ، نورستان، بدخشان، تخار، لغمان) سمیت ان علاقوں کو غیر مستحکم کیا جائے جہاں سی پیک پراجیکٹ اور واخان پراجیکٹ پر عمل درآمد ہو رہا ہے، تاکہ وسطی ایشیاء کے ممالک اور چین بد امنی کا شکار ہو جائیں اور ان بڑے علاقائی اقتصادی منصوبوں پر عمل درآمد بند ہو جائے۔

تاجکستان اپنے معاشی فواد کی وجہ سے سی پیک منصوبے کی حمایت اور خیر مقدم کرتا ہے، لیکن پاکستانی جرنیلوں اور سیاست دانوں کے مغرب نواز ٹولے کی جانب سے وسطی ایشیا اور ازبک مسلح گروہوں کو جنوبی ازبکستان اور مشرقی ترکستان کی تشکیل کے خیالی وعدے کیے گئے ہیں، تاکہ ان گروہوں کی سرگرمیوں کے نتیجے میں چین اور وسطی ایشیا کے ممالک کے لیے سکیورٹی خطرات پیدا ہو جائیں اور خطے میں مغرب کے پلان کردہ منصوبے پر عمل درآمد ہو سکے۔

وسطی ایشیا کے دہشت گرد گروہ جو اپنے علاقوں کی آزادی کے خیالی وعدوں میں پھنسے ہوئے ہیں، چین کے مفادات اور سی پیک منصوبے پر عمل درآمد کے لیے سنگین خطرات سمجھے جاتے ہیں۔

"جنوبی ازبکستان” اور "مشرقی ترکستان” کے قیام سے ان گروہوں کی سرگرمیوں کے لیے خفیہ ٹھکانے میسر آسکتے ہیں اور اس سے علاقائی سلامتی کے معاملات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔

دہشت گردی کی کاروائیوں کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے الزام تراشی کا سلسلہ نہ صرف خطے میں حقیقی سلامتی کے چیلنجز کو حل کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوتا بلکہ ہمسایہ ممالک کے درمیان اعتماد و تعاون کی فضا کو بھی خطرے میں ڈالتا ہے۔

علاقائی استحکام اور سکیورٹی کے لیے عملی کوششوں کی بجائے الزام تراشی کے کھیل میں ملوث ہونا، تشدد میں اضافے کا باعث بنتا ہے اور نتیجہ خیز مذاکرات اور تعاون میں رکاوٹ بنتا ہے۔

مزی برآں، بے بنیاد الزام تراشی کے کھیل میں ملوث ہونا ہمسایہ ممالک کے درمیان اعتماد اور تعاون کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ اعتماد کا فقدان ناصرف دہشت گردی سے نمٹنے کی کوششوں میں رکاوٹ بنتا ہے بلکہ وسیع تر علاقائی اقدامات اور ترقیاتی منصوبوں جیسا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) ٹاپی، کاسا یک ہزار اور اس طرح کے دیگر علاقائی منصوبوں میں پیش رفت میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔

خطے کو درپیش سکیورٹی چیلنجز کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے پاکستان کو دیگر ممالک پر الزام تراشی سے گریز کرنا چاہیے اور ایک زیادہ فعال اور تعاون پر مبنی چلن اپنانا چاہیے۔ جس میں داخلی سکیورٹی کی خامیوں کا اعتراف کرنا، اپنے سکیورٹی مسائل کو خود حل کرنا اور ہمسایہ ممالک کے درمیان اعتماد اور تعاون کی فضا پیدا کرنا اور خطے کے استحکام کے لیے حقیقی اور عملی عزم کا اظہار کرنا شامل ہے۔

آج ایک نئے ورلڈ آرڈر نے اکثر ممالک کو انتخاب کے لیے مختلف اختیارات دے رکھے ہیں، دنیا کے اکثر ممالک جو اپنی بقاء کی فکر کرتے ہیں، خطے کے استحکام کے ساتھ مکمل ہم آہنگی اور تعاون کے راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اس نئے ورلڈ آرڈر کے اثرات ہمارے خطے میں زیادہ ہوں گے، کیونکہ اس نئے ورلڈ آرڈر کے اصلی کھلاڑیوں کے تین ممالک میں سے دو یہاں ہیں۔

پاکستان کو چاہیے کہ ایسی سیاست اور پالیسی کا انتخاب کرے جو اگر خطے کے ساتھ ساتھ نہیں بھی چلتی تو کم از کم خطے کے ساتھ تضاد اور ٹکراؤ کے راستے پر نہ ہو۔

پاکستانی فوج میں بعض جرنیلوں اور سیاستدانوں نے مغرب کے مفادات کے تحفظ کی پالیسی اپنا رکھی ہے ، یہ واضح طور پر خطے کے ساتھ تضاد اور ٹکراؤ کی جانب بڑھنا ہے۔

Author

Exit mobile version