بدرالدین سلطان غازی خداوندکار ( مراد اول) کے دور میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں انہوں نے اپنے والد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، قرآن کریم حفظ کیا اور ابتدائی کتابیں معروف عالم مولانا شاہدی سے پڑھیں۔
انہوں نے صرف و نحو کی کچھ کتابیں مولانا یوسف سے پڑھیں، پھر مصر چلے گئے، جہاں انہوں نے قاہرہ میں سید شریف جرجانی اور مولانا مبارک شاہ منطقی کے مدرسے سے اکتسابِ علم کیا۔ بعد میں انہوں نے مبارک شاہ کے ساتھ بیت اللہ کا حج کیا اور مکہ مکرمہ میں شیخ زیلعی کے شاگرد بنے۔ پھر دوبارہ قاہرہ واپس آئے اور وہاں سید جرجانی کی موجودگی میں شیخ اکمل الدین (بایبوری) سے فیض حاصل کیا۔
شیخ اکمل، مصر کے مملوک سلطان (فرج بن سلطان برقوق) کے استاد تھے۔ جب شیخ بدرالدین نے ظاہری علوم مکمل کر لیے، تو انہیں تصوف کی طرف رغبت پیدا ہوئی، چنانچہ وہ اس وقت کے بڑے روحانی بزرگ سعید اخلاطی کے پاس گئے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ شیخ اخلاطی نے انہیں تبریز روانہ کیا تاکہ وہ لوگوں کو ذکراللہ کی تلقین کریں اور اس کلمہ طیبہ کے مقاصد پر عمل کرنا سکھائیں۔
کہا جاتا ہے کہ جب تیمور لنگ تبریز آیا، تو اس نے بدرالدین کی بہت عزت و قدر کی اور انہیں بہت سا مال تحفے میں دیا، لیکن انہوں نے وہ سارا مال چھوڑ دیا اور روانہ ہو گئے۔ پہلے وہ بدلیس گئے، پھر مصر کی طرف سفر کیا، اس کے بعد حلب اور کوینہ سے ہوتے ہوئے روم کے علاقے تبرہ پہنچے، جہاں انہیں ساقز جزیرے کے رئیس کی دعوت ملی، جو مذہباً عیسائی تھا۔
بدرالدین، ساقز کے نصرانی امیر کی دعوت پر وہاں گیا۔ امیر نے اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ بعد میں جب موسیٰ بن سلطان کو غازیتوب کی حکومت ملی، تو بدرالدین کو اس نے قاضی القضاۃ مقرر کیا۔ لیکن جب موسیٰ اپنے بھائی محمد کے ہاتھوں قتل ہوا، تو بدرالدین اپنے اہلِ خانہ سمیت گرفتار ہو کر ازنیق شہر لایا گیا۔
ازنیق ترکی کا ایک شہر ہے۔ یہاں بدرالدین نے لوگوں کو اپنے گمراہ کن اور فاسد عقائد کی طرف بلانا شروع کیا۔ وہ لوگوں کو مذہب اور مال و دولت میں مساوات کا پیغام دیتا تھا، اور مسلمان و غیر مسلم کے عقیدے میں فرق کا قائل نہ تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ دین اور نظریے سے قطع نظر، تمام انسان بھائی بھائی ہیں۔
یہی دعوت دراصل یہودی ماسونیت کی تعلیمات تھیں۔ ادیان کے اتحاد (وحدت الادیان) کا یہ باطل نظریہ جاہل، ناسمجھ، اور وقت کے بہاؤ کے ساتھ چلنے والے لوگوں نے بڑی آسانی سے قبول کیا، جس کے باعث بدرالدین کے پیروکاروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ان میں ایک نمایاں شخصیت ’’پیر قلیجہ مصطفیٰ‘‘ کے نام سے معروف ہوئی۔ اس کے علاوہ ’’طُورہ کمال‘‘ نامی شخص بھی بہت مشہور ہوا، جو دراصل یہودی نسل سے تعلق رکھتا تھا۔
یہود ہمیشہ سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے لے کر آج تک، مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے آئے ہیں۔ بہرحال، وحدت الادیان کا یہ باطل مذہب بہت پھیل گیا اور اس کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی گئی، یہاں تک کہ سلطان محمد چلبی کے علم میں یہ بات آئی۔ اس نے بدرالدین کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بڑا لشکر بھیجا، لیکن افسوس کہ اس لشکر کا سپہ سالار ’’سیسمان‘‘، جسے محمد چلبی نے بھیجا تھا، پیر قلیجہ کے ہاتھوں قتل ہوا اور پورا لشکر شکست کھا گیا۔
پھر سلطان نے اپنا خاص وزیر ’’بایزید پاشا‘‘ کو ایک اور لشکر کے ساتھ روانہ کیا۔ اس نے پیر قلیجہ کو ’’قرہ بورنو‘‘ کے مقام پر شکست دی اور پیر قلیجہ مصطفیٰ پر جنگ کا شرعی حکم نافذ کیا اور اسے کڑی سزا دی گئی۔