خلافت عثمانیہ تاریخ کے اوراق سے! اکتیسویں قسط

حارث عبیدہ

بحری طاقت کا انتظام

سلطان نے جن چیزوں پر خاص توجہ دی، ان میں سے ایک عثمانی بحریہ کو پہلے سے زیادہ مضبوط کرنا اور اس میں جہازوں کی تعداد بڑھانا تھا تاکہ قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔ قسطنطنیہ جیسے بحری شہر کا محاصرہ مضبوط بحری طاقت کے بغیر ممکن نہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس مقصد کے لیے بنائے گئے جہازوں کی تعداد 400 تک پہنچ گئی تھی۔

مختلف ممالک کے ساتھ معاہدے:

قسطنطنیہ پر حملے سے قبل سلطان محمد نے اپنے کئی دشمنوں کے ساتھ صلح کی تاکہ دیگر اطراف سے مطمئن رہ کر صرف ایک دشمن سے جنگ کر سکے۔ اس کے علاوہ، اس نے قسطنطنیہ کے پڑوسی امارت "غلطہ” کے ساتھ بھی صلح کی، جو اس کے مشرق میں واقع تھی اور گولڈن ہارن (Golden Horn) کے پانیوں سے قسطنطنیہ کو الگ کرتی تھی۔

اسی طرح ہنگری اور وینس کی بادشاہتوں کے ساتھ بھی معاہدے کیے گئے، جو قسطنطنیہ کے پڑوس میں واقع تھیں۔ تاہم، جب قسطنطنیہ پر حملہ ہوا تو یہ معاہدے برقرار نہ رہ سکے، اور دیگر عیسائی ممالک کے فوجیوں کے علاوہ ان امارتوں کے فوجیوں نے بھی قسطنطنیہ کے دفاع میں حصہ لیا۔

جب سلطان محمد فاتح قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لیے دن رات گن رہا تھا، تو بازنطینی سلطنت کے بادشاہ نے محاصرہ توڑنے کے لیے بے پناہ دولت پیش کی اور کئی علاقوں کے ساتھ بھائی چارے کا ہاتھ بڑھایا۔ انہوں نے سلطان کو اس مقصد سے ہٹانے کی بہت کوشش کی، لیکن سلطان نے کوئی پیشکش قبول نہ کی۔ اس نے عزم کیا تھا کہ وہ کسی بھی حال میں اس شہر کو فتح کرے گا اور عثمانی سلطنت کے مقابل تمام بہانوں کو ختم کر دے گا۔

بازنطینی بادشاہ کو جب معلوم ہوا کہ عثمانی فوج رشوت قبول نہیں کرتی اور شہر کو فتح کرنے کا پختہ ارادہ رکھتی ہے، تو اس نے مختلف یورپی ممالک سے مدد مانگی، بالخصوص کیتھولک عیسائی فرقے کے مذہبی رہنما سے مدد طلب کی۔ اگرچہ قسطنطنیہ آرتھوڈوکس عیسائی فرقے کا مرکز تھا اور کیتھولک فرقے کے ساتھ اس کے مذہبی اختلافات تھے، لیکن بازنطینی بادشاہ نے مذہب کی قربانی دی اور سلطنت کو بچانے کے لیے روم کے پوپ سے مدد مانگی۔

بازنطینی بادشاہ نے مجبوری میں پوپ کے ساتھ تحفظ کی حکمت عملی اپنائی اور اسے اپنا اتحادی بنانے کی کوشش کی۔ اس نے یہ اعلان کیا کہ وہ مشرقی آرتھوڈوکس کلیسا میں عیسائیوں کے درمیان اتحاد کے لیے پوپ کی اطاعت کے لیے تیار ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب آرتھوڈوکس فرقہ ان باتوں کو پسند نہیں کرتا تھا۔

بہرحال، پوپ نے اپنا نمائندہ قسطنطنیہ بھیجا، جس نے شہر کی سب سے بڑی کلیسا، ایاصوفیہ، میں خطاب کیا اور پوپ کے لیے دعا کی۔ اس اعلان کو سن کر آرتھوڈوکس کے بہت سے پیروکار غصے میں آ گئے اور بادشاہ اور پوپ کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ حتیٰ کہ کچھ لوگوں نے کہا: "ہم بازنطینی گھروں میں لاطینی لباس دیکھنے کے بجائے ترکوں کی پگڑیاں دیکھنا پسند کریں گے۔”

قسطنطنیہ شہر باسفورس، مرمرہ سمندر کی تنگ گزرگاہوں اور گولڈن ہارن (Golden Horn) کے پانیوں میں واقع تھا۔ اس کے دفاع کی خاطر جہازوں کو روکنے کے لیے بڑے میناروں اور زنجیروں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ ضرورت پڑنے پر زنجیریں ڈھیلی کر دی جاتی تھیں تاکہ جہاز اندر آ سکیں، اور زنجیریں کھینچ کر راستہ بند کر دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ جزیرے کی طرف دو بڑے قلعہ جاتی حصار تھے، جو مرمرہ سمندر سے لے کر گولڈن ہارن (Golden Horn) تک پھیلے ہوئے تھے۔ یہ دونوں قلعے ایک ہی لکیر میں واقع تھے اور ان کے ساتھ ایک ندی بھی تھی جسے "لیکوس” کہا جاتا تھا۔

Author

Exit mobile version