خوارج؛ تکفیر کے دعویدار؛ خود گناہ کبیرہ کے مرتکبین! گیارہوں اور اخری قسط

احمد شکیب

باقی وہ کبیرہ گناہ جن میں خوارج یعنی داعشی مبتلا ہیں، درج ذیل ہیں:

۲۸۔ دشمن کے لیے مسلم ممالک پر قبضے کی راہ ہموار کرنا:

یہ ایک بہت بڑا خیانت انگیز اور فساد پھیلانے والا گناہ ہے، جس کی اسلام نے شدید مذمت کی ہے۔ یعنی جو شخص ایسا عمل کرے جس سے کافر دشمن کے لیے اسلامی ملکوں پر قبضہ آسان ہو جائے، وہاں رسوخ حاصل کرے، یا اقتدار پر قابض ہو جائے۔

شریعت میں کفار کی مدد کرنا، یا ان کے لیے مسلمانوں کی کمزوری، تفرقہ، اور داخلی جنگوں کا میدان ہموار کرنا حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ‘‘(المائدہ: ۵۱)

ترجمہ: تم میں سے جو کوئی ان(کفار) سے دوستی رکھے گا، وہ انہی میں سے ہوگا۔

خوارج اپنے حملوں، بم دھماکوں، فتنوں، ریاست مخالف اقدامات، اور لوگوں کو خوف زدہ کرنے کے ذریعے کفری قوتوں کے لیے مداخلت کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ یہ لوگ اسلامی نظاموں کے خلاف بغاوت کرتے ہیں، انہیں کمزور کرتے ہیں، اور کفار کو یہ بہانہ فراہم کرتے ہیں کہ ’’دہشتگردوں‘‘ کا خاتمہ کریں، حالانکہ دراصل وہ کفار کے لیے اسلامی ممالک میں دخل اندازی کے لیے راستہ بناتے ہیں۔

یہ عمل نہ صرف خیانت ہے، بلکہ امت کے خلاف عملی مدد بھی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

’’المسلم أخو المسلم، لا یظلمه ولا یسلمه‘‘

ترجمہ: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے؛ نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے دشمن کے حوالے کرتا ہے۔

مگر خوارج اور ان کے موجودہ نمائندے یعنی داعش قرآن و حدیث کی مخالفت کرتے ہوئے ہمیشہ کفار کی مدد کرتے ہیں۔

۲۹۔ قتل النفس التی حرم الله إلا بالحق:

(اس جان کو قتل کرنا جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے)

اسلام نے انسانی جان کو بہت محترم قرار دیا ہے حتی کہ ایک غیر مسلم ذمی کی جان کو بھی بغیر حق کے قتل کرنا حلال نہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتے ہیں:

’’وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ‘‘ (الاسراء ۳۳).

ترجمہ: اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے، مگر حق کے ساتھ

خوارج ’’تکفیر‘‘ کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں: علماء، طلباء، ائمہ مساجد حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو ان سے اختلاف رکھیں۔ ان کا یہ عمل اسلام کی روح کے بالکل خلاف ہے۔

نبی ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا: ’’یقتلون أهل الإسلام ویدعون أهل الأوثان‘‘

ترجمہ: یہ لوگ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں اور بت پرستوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔

اس قتل و غارت گری سے مسلمانوں کا خون بہایا جاتا ہے، مسلمانوں میں خوف پھیلایا جاتا ہے، جہاد کی عظمت کو نقصان پہنچتا ہے، اور اسلام کو بدنام کرنے کا ایک وسیلہ ہے؛ یہی عمل خوارج کی بغاوت اور فساد کی واضح علامت ہے۔

یہ وہ ۲۹ کبیرہ گناہ تھے جن کا ارتکاب خوارج اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے موجودہ داعشی سرانجام دے رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ نوجوان نسل خود کو اس فتنے سے محفوظ رکھے۔

Author

Exit mobile version