خوارج کی پہچان | چوتھی قسط

راشد شفيق

نہروان میں خوارج کے ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بات چیت:

نہروان میں کئی بار حضرت علی رضی اللہ عنہ اور خوارج کے درمیان بات چیت ہوئی، لیکن جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوارج سے کہا کہ وہ اپنی فتنے کی وجوہات بیان کریں، تو انہوں نے جوابات دیے اور درج ذیل باتوں کا ذکر کیا:

۱۔ جنگِ جمل میں خواتین اور بچوں کو غنیمت کے طور پر کیوں تقسیم نہ کیا گیا، جیسا کہ پیسے تقسیم کیے گئے تھے؟

۲۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صفین میں ہونے والے حکمیت کے معاہدے میں "امیر المؤمنین” کا لفظ کیوں حذف کیا گیا اور ان کی اطاعت کیوں قبول کی گئی؟

۳۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے حَکَمین کو یہ کہنا کہ: "اگر میں خلافت کے قابل ہوں تو میرا حق ثابت کریں”، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں خلافت کے حق پر شک تھا۔

۴۔ حق پر ہونے کے باوجود آخر کیوں تحکیم کو قبول کیا گیا؟

ان اعتراضات کے جوابات حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیے اور ان کے ہر شُبہے کو رد کیا:

پہلے اعتراض کے جواب میں فرمایا کہ: طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما نے بصرہ کے بیت المال سے پیسے لیے تھے نہ کہ مال غنیمت سے، اور وہ بھی ضرورت کے تحت لیے گئے تھے، مسلمان خواتین اور بچے مالِ غنیمت ہیں نہ ہی انہیں غلام و باندی بنایا جاسکتاہے۔

دوسرے اعتراض کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیبیہ کے معاہدے کی طرح تھا، اور انہوں نے فرمایا:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا تھا کہ ایک دن میں ان کے ساتھ ایسا کچھ کروں گا۔”

تیسرے اعتراض کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکَمین کے انتخاب کے بارے میں کہا کہ انہوں نے صرف انصاف کے لیے ایسا کیا، اور نجران کے وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مباہلہ کے واقعے کا ذکر کیا۔

چوتھے اعتراض کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ کو بنی قریظہ قبیلے کا حَکم مقرر کیا تھا، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یقینی طور پر حق پر تھے۔

خوارج کی بغاوت اور مسلمانوں سے الگ ہونے کی وجوہات:

خوارج کی بغاوت کی وجوہات کو مختصر طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

۱۔ خلافت پر اختلاف؛

یہ خوارج کے خروج کا سب سے بڑا سبب سمجھا جاتا ہے، خوارج کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں سخت نظریہ تھا، ان کے مطابق موجودہ حکمران خلافت کے اہل نہیں تھے، کیونکہ ان میں خوارج کی سخت شرائط پوری نہیں ہوتی تھیں۔

مزید یہ کہ انہوں نے حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان خلافت کے مسئلے پر اختلاف کو خلافت کی جنگ قرار دیا تھا، اسی سبب سے انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور بعد میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کا حوصلہ ملا۔

۲۔ تحکیم کا مسئلہ:

خوارج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مجبور کیا کہ وہ تحکیم کے فیصلے کو قبول کریں۔ جب یہ فیصلہ ہوگیا، تو انہوں نے دوبارہ مطالبہ کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس فیصلے سے رجوع کریں اور نئے سرے سے تجدید ایمان بجا لائیں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو سخت جواب دیا۔

۳۔ مسلمان امراء پر ظلم اور منکرات کا الزام لگانا:

خوارج اپنے خطبوں اور بیانات میں کہتے تھے کہ حکام ظلم کر رہے ہیں اور منکرات پھیل رہے ہیں، لیکن حقیقت میں جب وہ خود مسلمانوں سے الگ ہوئے تو انہوں نے اس سے بدرجہا زیادہ مظالم اور منکرات سرانجام دیے۔

۴۔ اقتصادی عوامل:

جیسا کہ ذوالخویصرة کا واقعہ، جس میں اس نے تقسیم غنائم کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عدم عدل کا الزام لگایا، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف ان کی دشمنی، انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد بیت المال کی لوٹ مار جاری رکھی اور میدانِ جنگ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرڈالی۔

Author

Exit mobile version