حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اسلام کے نام پر گمراہ فرقے ابھرنے لگے اور ان کی سرگرمیوں کے نتیجے میں صحابہ کرام کے درمیان جنگیں ہوئیں جن میں سے ایک جنگ صفین تھی۔
جنگ صفین کی دو وجوہات تھیں:
۱۔ اجتہادی غلطی
۲۔ فتنہ گروں (سبائی اور خوارج) کی شر پسند سرگرمیاں
یہ جنگ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان پیش آئی، کئی دنوں تک جاری رہی، جس میں دونوں طرف سے تقریبا ۷۰ ہزار لوگ مارے گئے (۲۵ ہزار افراد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر سے جبکہ ۴۵ ہزار افراد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر سے) جس کا انجام سوائے قتل اور بدبختی کے اور کچھ نہ نکلا۔
جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اس جنگ کی تباہ کارئیوں کو دیکھا تو سمجھداری سے جنگ بندی کا مشورہ دیا اور کہا کہ آئیں قرآن کی طرف رجوع کریں تاکہ ہمارے درمیان فیصلہ کرے!
شام کے سپاہیوں (حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ) نے مصاحف کو اپنے نیزوں پر اٹھایا اور بلند آواز میں کہا: "هذا بیننا و بینکم” یعنی قراآن ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا۔
جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا نمائندہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انہیں قرآن سے فیصلہ کرنے کی دعوت دی، تو انہوں نے فراخ دلی اور مسرت سے اس بات کا خیر مقدم کیا اور فرمایا: ہم بھی راضی ہیں کیونکہ ہم قرآن کریم پر عمل کرنے کے مستحق ہیں۔”
لیکن جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ بندی تسلیم کر لی اور اپنے بھائیوں کے قتل کو ختم کرنے کی کوشش کی، تو ان کے لشکر میں جاہل لوگوں کا ایک گروہ اس کی مخالفت میں اٹھ کھڑا ہوا اور علی رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا کہ یہ اللہ کے دین کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ پھر انہوں نے کچھ نعرے بلند کیے اور اپنے الفاظ میں اور اپنی دانست میں انسانوں کی حکمرانی کو اللہ کے دین میں گناہ گردانا۔
جی ہاں! منافقین میں مسلمانوں کے درمیان صلح صفائی اور اتفاق کا صبر و حوصلہ نہیں تھا اسی لیے انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں انتشار اور اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کی اور بعض لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر سے خارج کر کے ان کے خلاف کر دیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکمیت کی بات مان لی اور اس کے بعد اپنے لشکر کے ساتھ واپس کوفہ چلے گئے۔
ان کے کوفہ پہنچنے سے قبل تقریبا بارہ ہزار افراد ان کے لشکر سے علیحدہ ہو گئے اور حروراء نامی جگہ کو اپنا ٹھکانا بنایا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو ذمہ داری سونپی کہ ان کے ساتھ مذاکرات کریں اور الہٰی آیات کی بنیاد پر ان کو راضی کریں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ان میں سے ایک گروہ کو راضی کرنے اور پھر سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن بعض جاہل باغی بھی تھے جنہوں نے حضڑت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بات نہ مانی اور عبد اللہ بن وھب راسبی کو اپن سربراہ مقرر کر لیا اور باضابطہ طور پر خوارج کا فرقہ قائم کر لیا جس کی نسل آج تک چل رہی ہے۔
اس جاہل مکتبہ فکر کی بنیاد یہ تھی:
رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم کے حضور بد اخلاقی سے لے کر برحق خلافت کے خلاف بغاوت اور مسلمانوں کی تکفیر اور ان کے قتل تک۔
پوری تاریخ میں انہوں نے اس آیت کریمہ کے برعکس کام کیا:
"أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ””
یعنی خوارج مومنین کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں اور کافروں کے ساتھ رحم کا معاملہ کرتے ہیں۔ حروریہ کے خوارج سے لے کر داعشی خوارج تک تمام خوارج گروہ اس مسئلے پر پوری طرح کاربند ہیں اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے۔