شام میں کئی کمانڈروں نے داعش کے خلاف جنگ شروع کی، جس کی وجہ سے وہ اسد رجیم کے خلاف جہاد سے دستبردار ہو گئے، اور اس سے کئی لوگ شہید ہوئے۔ اسی طرح، کئی اسلامی ممالک نے داعش کے بدنامِ زمانہ اور خطرناک گروہ کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔
نہ صرف شام کی عوام بلکہ دیگر عرب قوموں نے بھی اس جنگ کے حکم کے بارے میں سوالات اٹھائے، خاص طور پر ان لوگوں کے بارے میں جو اس مغربی گروہ کے مقابلے میں مارے جاتے ہیں، کیا وہ شہید ہیں یا نہیں؟
کچھ عرصے تک ان پائلٹوں کے بارے میں بحث ہوتی رہی جنہوں نے داعش کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔ جبکہ کئی مشہور علماء اس بارے میں حکم دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے، حتیٰ کہ کچھ نے داعش کے خلاف جنگ میں مارے جانے والوں کو شہید تسلیم نہیں کیا۔ یہ وہ مؤقف ہے جسے ہم سختی سے مسترد کرتے ہیں۔
اکثر لوگ ان جرائم کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں جو یہ باطل گروہ اسلام کے نام پر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، کچھ غیر مسلم بھی داعش کے بارے میں سنی اسلام کے مؤقف کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ سنی مسلمانوں کی حیثیت سے، داعش کے پیروکاروں کی غلط درجہ بندی کو دیکھتے ہوئے، جو عام اذہان میں رائج ہو چکی ہے، بہت سے لوگ اس کی وضاحت مانگتے ہیں کہ اسلام کس حد تک داعش کے نظریات اور اعمال کی نمائندگی کرتا ہے۔
اس وضاحت کی بہت ضرورت ہے، کیونکہ کچھ مغربی میڈیا ادارے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر داعش کی آئیڈیالوجی اور مسلمانوں کی اصلی راہ کے درمیان گمران کن انداز میں تعلق ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک مشہور مثال فاکس نیوز (Fox News) ہے۔
مغربی میڈیا نے داعش کے فتووں، مؤقف اور جرائم میں کئی بنیادی عناصر تلاش کیے اور وہ اس کے ذریعے مغربی عوام کے درمیان اسلام کے حوالے سے خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں، جبکہ وہاں اسلام کا با برکت دین دن بہ دن پھیل رہا ہے اور ترقی کر رہا ہے، اور لوگ دن بہ دن اس کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔
ہم ان شاء اللہ معاشرے میں خوارج، خاص طور پر داعش کے خلاف جنگ کے شرعی حکم کو بیان کریں گے۔ ہم منہجی دلائل کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس مفسد گروہ کے تمام اعمال مکمل طور پر شریعت کے خلاف ہیں، اس کا خلافت کا دعویٰ بھی غلط ہے، اور خطے کے لوگوں پر ان کے خلاف جنگ فرض ہے تاکہ اس مغربی اور متعصب گروہ کا زمین سے وجود ختم کیا جا سکے۔