داعشي خوارج: اسلام کے خلاف مغرب کا نیا ہتھیار! اٹھارہویں قسط

احسان عرب

عالمِ اسلام کی تقسیم؛ موجودہ دور کے داعشی خوارج کا اصل مشن!

 

حالیہ برسوں میں امت مسلمہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ‘داعش’ نامی گروہ کا ابھرنا ہے۔ یہ ایک مکروہ گروہ ہے جو خلافتِ اسلامیہ اور مسلمانوں کے اتحاد کے نعرے کے ساتھ سامنے آیا، لیکن عملی طور پر اس نے عالمِ اسلام کے لیے تباہی، تفرقہ، اور تقسیم کے سوا کچھ نہیں کیا۔

گزشتہ چند برسوں کے واقعات پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ داعش، خواہ شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر، دشمنانِ اسلام کے مقاصد کی راہ پر گامزن رہی اور عالمِ اسلام کے سیاسی، سماجی، اور مذہبی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے لیے ایک مؤثر ہتھیار بن گئی۔

مغربی ممالک کئی برسوں سے عالمِ اسلام کے اتحاد، آبادی، اور وسائل سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اگر امتِ مسلمہ متحد ہو جائے تو نہ صرف اس کے پاس عظیم وسائل ہوں گے، بلکہ وہ عالمی نظام میں ایک خودمختار اور مؤثر قوت کے طور پر ابھر سکتی ہے۔

اسی وجہ سے، عالمِ اسلام کی تقسیم کے لیے ایک پیچیدہ اور گہرا منصوبہ بنایا گیا؛ ایک ایسی منصوبہ بندی جس میں داعشی خوارج نے کرائے کے جنگجوؤں کے طور پر اسے عملی جامہ پہنانے کا کردار ادا کیا۔ عراق میں، داعش نے سنی اکثریتی علاقوں پر قبضہ کرکے اور خود ساختہ خلافت کا جھنڈا بلند کرکے، نسلی اور مذہبی تقسیم کو مزید گہرا کرنے کی راہ ہموار کی۔

اس کے نتیجے میں، کرد شمال میں مزید خود مختاری کے حصول کی طرف بڑھنے لگے، شیعوں نے جنوب میں زیادہ خودمختار سیاسی ڈھانچے بنائے، اور اہل سنت داعش اور ملیشیا کے درمیان آگ میں گھر گئے۔ حقیقت میں داعش کی موجودگی کا کیا نتیجہ نکلا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک متحد ملک تین الگ الگ علاقوں میں تبدیل ہو گیا، جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی غیر ملکی طاقت کے اثر و نفوذ کے زیرِ اثر آ گیا۔

شام میں بھی داعش ملک کے کچھ حصوں پر قبضہ کرکے، بشار الاسد کی زیر قیادت مرکزی حکومت کو مضبوط کرنے اور اسد مخالف گروہوں کو قربان کرنے کا باعث بنی، اور اس نے غیر ملکی افواج کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے ملک میں داخلے کا راستہ کھول دیا۔

نتیجتاً، شام عملاً کئی حصوں میں تقسیم ہو گیا: کچھ علاقے رژیم کے ہاتھ میں رہے، کچھ کردوں کے کنٹرول میں آئے، ایک علاقہ انقلابیوں کے قبضے میں رہا، کچھ دوسرے ترکی اور امریکہ کے اثر و نفوذ کے تحت آئے، اور وہ علاقے جو عارضی طور پر داعش کے ہاتھ میں تھے، تباہ و برباد ہو کر رہ گئے۔

لیبیا میں بھی، مرکزی حکومت کے خاتمے کے بعد داعش نے اس ملک میں قدم رکھا اور سرت جیسے اہم شہروں میں اڈے بناکر انتشار کو مزید بڑھاوا دیا۔

لیبیا، جو قذافی کے بعد اتحاد اور ترقی کی امید رکھتا تھا، اب کئی علاقائی حکومتوں اور مسلح گروہوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔ اس دوران، داعش نے اختلافات کو بڑھاوا دینے اور بے مقصد نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل کرکے اس ملک کی تقسیم کے عمل کو مزید تیز کر دیا۔

تھوڑا سا غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ داعش دشمنانِ اسلام کی طرف سے "نئے مشرق وسطیٰ” کے عنوان سے ایک پرانے اور شرمناک منصوبے کا مرکزی عمل کنندہ ہے؛ ایک مکروہ منصوبہ جس کا مقصد بڑے اسلامی ممالک کو چھوٹی اور کمزور نسلی و مذہبی ریاستوں میں تبدیل کرنا ہے۔

داعشی خوارج نے اس زہریلے منصوبے کو نافذ کرنے کے لیے، فرقہ وارانہ تنازعات کو ہوا دینے، سرحدوں کو ختم کرنے، اور غیر ملکی مداخلتوں کے ذریعے اسلامی ممالک کو کمزور کرکے تقسیم کرنے کی راہ ہموار کی اور غیر ملکی طاقتوں کے اثر و نفوذ اور غلبے کے لیے موقع فراہم کیا۔

اگرچہ داعش نے ظاہری طور پر خلافت اور امت کے اتحاد کا نعرہ دیا، لیکن باطن میں اس نے امت مسلمہ کے اتحاد اور طاقت کو سب سے بڑا اور تباہ کن دھچکا پہنچایا۔ وہ ممالک جو پہلے اتحاد اور استحکام کی امید رکھتے تھے، اب جغرافیائی تقسیم، مذہبی منافرتوں، اور تباہی کا شکار ہیں۔

جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کو بہت ہوشیار رہنے اور اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر وہ تحریک جو اختلاف، تفرقہ، اور تقسیم کی راہ ہموار کرتی ہے، خواہ وہ دین کے نام پر ہو یا خوبصورت نعروں کے پردے میں، حقیقت میں اسلام کے دشمنوں کی خدمت گار ہے اور بس۔

Author

Exit mobile version