اسلامی ممالک کو بیرونی امداد کا محتاج بنانا:
گزشتہ چند دہائیوں سے اسلامی ممالک مسلسل جنگوں اور بحرانوں کا شکار رہے ہیں۔ یہ ایسی تباہ کن جنگیں تھیں جنہوں نے نہ صرف ان ممالک کا امن و استحکام تباہ کیا، بلکہ ایسا موقع فراہم کیا کہ اسلامی ممالک اقتصادی، عسکری اور سیاسی لحاظ سے مغرب کے تابع ہو جائیں۔
ان تمام واقعات میں خارجی گروہ، یعنی داعش کا کردار سب سے نمایاں اور خطرناک رہا۔ یہ گروہ بظاہر امتِ مسلمہ میں سے ابھرا، مگر درحقیقت مغربی طاقتوں کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوا، جس نے اسلامی ممالک کو تباہی کی آگ میں جھونک دیا۔ داعش کے ظہور کے ساتھ ہی عراق، شام اور دیگر ممالک میں اس گروہ کے جرائم اس قدر وسعت اختیار کر گئے کہ اسلامی ممالک کے کئی حیاتی و اساسی ڈھانچے خاک میں ملا دیے گئے۔
اس دوران بجلی کے ذخائر، پانی کی فراہمی کے نظام، اسپتال، اسکول، مساجد، تاریخی آثار اور دیگر اہم انفراسٹرکچر براہ راست نشانہ بنے اور تباہ کر دیے گئے۔
یہ منظم تباہی اسلامی ممالک کو اس نہج پر لے آئی کہ وہ اپنے زورِ بازو سے سنبھلنے کے قابل نہ رہے، اور بالآخر انہیں مغربی ممالک اور بین الاقوامی اداروں سے امداد کی درخواست کرنا پڑی؛ ایسی امداد جو ہمیشہ شرائط، دباؤ اور پابندیوں سے مشروط ہوتی ہے۔
یہ تباہی صرف فزیکی ہی نہ تھی، بلکہ اس کے گہرے نفسیاتی اثرات بھی مرتب ہوئے؛ وہ اقوام جو کبھی آزادی، عدل اور اسلامی حاکمیت کی خواہاں تھیں، آج زندہ رہنے کے لیے مغربی ممالک سے خوراک، طبی اور مالی امداد کی سخت محتاج بن چکی ہیں۔
اپنے شہروں کی ازسرِ نو تعمیر کے لیے اسلامی ممالک کو مجبوراً عالمی مالیاتی اداروں جیسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) اور عالمی بینک، سے بھاری قرضے لینے پڑے؛ ایسے ادارے جو اکثر استعماری پالیسیوں اور سخت شرائط کے حامل ہوتے ہیں۔
مغربی ممالک کی امداد پر انحصار عالمِ اسلام کے لیے نہایت مہلک نتائج کا باعث بنا؛ کیونکہ اگرچہ دشمن کی یہ امداد بظاہر انسانی ہمدردی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہوتی ہے، لیکن درحقیقت یہ امداد سیاسی اثر و رسوخ، مغربی ثقافت کے نفوذ اور اسلامی ریاستوں کی خودمختار فیصلہ سازی کے خاتمے کا ایک ذریعہ بن جاتی ہے۔
یقیناً ان امدادی سرگرمیوں نے نہ صرف اسلامی معاشروں کے مسائل حل نہ کیے، بلکہ مسلمانوں کو مزید اقتصادی مشکلات، خود ساختہ غربت اور دائمی بحرانوں کے گرداب میں دھکیل دیا۔
اسی بناء پر، اس تحریر میں ہم مغربی طاقتوں پر اسلامی ممالک کے انحصار کے بعض منفی نتائج کا اجمالی جائزہ پیش کریں گے۔
۱۔ سیاسی خودمختاری کا خاتمہ:
وہ ریاستیں جو بیرونی امداد کی محتاج بن جاتی ہیں، مجبور ہوتی ہیں کہ اپنی داخلی و خارجی پالیسیوں میں مغربی طاقتوں کے مفادات کو مقدم رکھیں اور صرف ان ہی کی خوشنودی کے مطابق فیصلے کریں۔
۲۔ دینی و ثقافتی اقدار کا زوال:
جب اسلامی ممالک مغربی طاقتوں پر انحصار کرتے ہیں، تو فکری و تہذیبی یلغار کے دروازے کھل جاتے ہیں، اور اسلامی اقدار تحریف، کمزوری اور فراموشی کے خطرے سے دوچار ہو جاتی ہیں۔
۳۔ کرپشن اور کٹھ پتلی نظاموں کا فروغ:
وہ حکومتیں جو اغیار کی حمایت پر قائم ہوتی ہیں، رائے عامہ کی حمایت سے محروم ہوتی ہیں، اور ان کی پالیسیاں اغیار کے احکام کے تابع ہوتی ہیں۔ یہی امر انتظامی اور سماجی بدعنوانی کے لیے راہ ہموار کرتا ہے۔
۴۔ جذبۂ آزادی کا خاتمہ:
نوجوان نسل میں حریت کی تمنا ختم ہوجاتی ہے؛ وہ ایک محتاج اور صارف ذہنیت کا پیکر بن جاتا ہے، جس کی منتہائے فکر مغرب کی گمراہ کن ثقافتوں کی نقالی رہ جاتی ہے۔
نتیجتاً کہا جا سکتا ہے کہ خارجی گروہ یعنی داعش، اسلام کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ عالمِ اسلام کو کمزور کرنے کی ایک منصوبہ بند سازش ہے؛ ایک باطل محاذ جو عالمِ اسلام کی بربادی، داخلی خانہ جنگیوں کے شعلے بھڑکانے اور مغربی مداخلت کے دائرے کو وسعت دینے کا ذریعہ بنا۔