داعشی انتہاپسند فکر کے مطابق انہیں کون سا نظام قابل قبول ہے؟

احمد عابد

داعش ایک دہشت گرد اور انتہا پسند گروہ ہے، جس کی بنیاد ۲۰۱۴ء میں رکھی گئی، اس گروہ نے ابتدائی طور پر عالمی اسلامی خلافت کے قیام کا دعویٰ کیا اور عراق، شام کے وسیع علاقے اپنے کنٹرول میں لے لیے۔ لیکن بتدریج، دین کی غلط تشریح اور اپنی بے جا انتہا پسندی کی وجہ سے اس نے جو کچھ بھی حاصل کیا تھا، وہ سب کھو دیا۔

داعش اگرچہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتا ہے، لیکن حقیقت میں اس نے اسلامی نظام کی حیثیت و روح کو مسخ کیا۔

داعش کے نظریات جو اسلامی خلافت اور شریعت کے بارے میں ہیں، اگرچہ اسلام کے نام پر پیش کیے جاتے ہیں، لیکن ان پر بہت سے علمائے اسلام اور مسلم مفکرین کی جانب سے شدید تنقید کی جاتی ہے۔

اسلام میں خلافت اس نظام کو کہا جاتا ہے جو عدل، مشورہ اور تمام انسانی حقوق پر مبنی ہو، خلافت راشدہ میں خلفاء کو لوگوں کی بیعت اور مشورے سے منتخب کیا جاتا تھا، نہ کہ طاقت اور تشدد کے ذریعے، داعش نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے، اس کا مقصد اقتدار حاصل کرنا اورنام نہاد خلافت کو مسلط کرنا ہے، ایسی فکر اسلامی خلافت کے کسی بھی تصور سے مطابقت نہیں رکھتی، ایسی خلافت جو خوف و دہشت کے ذریعے قائم ہو، وہ دینی جواز سے عاری اور محروم ہوتی ہے۔

اسلامی شریعت عدل، رحم اور اصلاح کی دعوت دیتی ہے اور سزائیں صرف مطلوبہ شرائط کے پائے جانے اورجرم کے مکمل طور پر ثابت ہونے کے بعد ہی نافذ کی جاتی ہیں، لیکن داعش شریعت کو ایک انتہاپسندانہ اور غلط طریقے سے نافذ کرتی ہے، ان کا طریقہ کار شرعی سزاؤں کے حوالے سے یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔

جہاد، جو اسلامی خلافت کے لیے ایک اہم اور اوّلین قدم ہے جو ظلم کی روک تھام اور مظلوموں کا دفاع کرنے کو کہا جاتا ہے، اسلامی قوانین کے مطابق شہریوں، خواتین، بچوں اور حتیٰ کہ دشمن کے بزرگوں کا تحفظ جہاد میں ضروری سمجھا جاتا ہے؛ لیکن داعش ان اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے شہریوں کو نشانہ بناتی ہے اور ایسی جنگی جرائم انجام دیتی ہے جو اسلامی اقدار و روایات کے یکسر منافی ہیں۔

اسلامی خلافت امت کی وحدت کے لیے قائم کی جاتی ہے، یہ اس کا سب سے اہم مقصد ہے، جبکہ شریعت تفرقہ اور تکفیر کو بڑے گناہ قرار دیتی ہیں، لیکن داعش مسلمانوں کی تکفیر کرکے اس وحدت کو تباہ کرکے اسلام کے بجائے دشمنوں کے مفاد میں مصروف عمل ہے۔

اسلامی شریعت عدل، رحمت، امن، فلاح اور اسی طرح کے دیگر مقاصد کے حصول کے لیے نازل کی گئی ہے، لیکن داعش کے اقدامات نہ صرف اسلامی امت کے مفاد میں نہیں ہیں، بلکہ یہ اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کی عالمی حیثیت کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے ہیں۔

مندرجہ بالا نکات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ داعش کے نظریات اسلام کے بنیادی اصولوں اور قرآنی ہدایات کے بالکل مخالف ہیں، یہ گروہ اسلامی مفاہیم کی تحریف اور انتہاپسندانہ تفسیر و تشریح کے ذریعے نہ صرف اسلامی معاشرے کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں اسلام کے خلاف نفرت اور اسلامو فوبیا کو بڑھاوا دینے کے لیے اسباب فراہم کرتا ہے۔

داعشی گروہ اسلامی دنیا کی تمام جہادی اور سیاسی تحریکوں سے مخالفت کے علاوہ اب امارت اسلامی کے مقالیسیاں اور فیصلوں کو حنفی فقہ کی روشنی میں ترتیب اور عملی طور پر نافذ کیا جاتا ہے۔

جمہوری نظاموں کے برعکس امارت اسلامی کا نظام عام انتخابات اور پارلیمنٹ کی ضرورت نہیں سمجھتا بلکہ اس نظام کی مشروعیت و جواز دین کے اصولوں پر قائم ہے، اس نظام میں اعلیٰ حکام کو عمومی امیر کی طرف سے منتخب کیا جاتا ہے، جن کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ وہ شریعت اور امارت سے وفادار و مخلص ہونے چاہئیں۔

امارت اسلامی افغانستان اسلامی، ثقافتی اورروایتی اقدار کی حمایت کرتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ معاشرتی سطح پر مغربی ثقافتی اثرات سے ملک وقوم کو محفوظ رکھاجائے، یہ نظام امن و امان کے قیام پر خصوصی توجہ دیتا ہے اور جرائم کی روک تھام کے لیے سخت شرعی سزائیں وضع کرتا ہے، جن میں حدود، قصاص اور تعزیرات شامل ہیں، جو معاشرتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے لیے نافذ کی جاتی ہیں۔

ان تمام شرعی خصوصیات کے باوجود، داعشی گروہ امارت اسلامی سے شدید دشمنی رکھتا ہے اور اس کے حکام، افراد اور حیثیت پر حملے کرتا ہے، داعش نہ صرف افغانستان کے امارت اسلامی کے نظام کے خلاف ہے، بلکہ بہت سے دیگر اسلامی اور جہادی تحریکوں کے ساتھ بھی اس کے نظریاتی اور اسٹریٹیجک اختلافات ہیں، اور یہ چاہتی ہے کہ دینی احکام صرف ان کی انتہا پسندانہ تفسیر و تشریح کی روشنی میں بیان و نافذ کیے جائیں۔

Author

Exit mobile version