داعشی خوارج افغانستان میں کیا چاہتے ہیں؟

حارث هاشم

۲۰ سالہ جہاد و مزاحمت کے بعد افغانستان میں مکمل اسلامی نظام قائم ہو چکا ہے، پورے ملک میں امن وامان کو یقینی بنایا گیا ہے، بغیر کسی پابندی کے اسلامی احکام نافذ ہیں، امر بالمعروف ونھی عن المنکر کے حکم خداوندی پر عمل کیا جا رہا ہے، قابض افواج کو ملک سے بے دخل کر دیا گیا ہے، جمہوریت کے نام سے ایک کرپٹ ادارے کو جس کے تمام قوانین مغرب سے ماخوذ تھے جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا ہے، لہذا اب داعش افغانستان میں اور کیا چاہتی ہے؟!

اگر ان خوارج کا مقصد اسلامی نظام لانا اوراسلام کی خدمت کرنا تھا تو وہ حاصل ہوچکا ہے، اسلامی نظام نافذ ہوچکا، مظلوم کی آواز سنی جا رہی ہے، ظالم کو ظلم سے روک دیا گیا ہے، اور فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کا برملا اعلان کیا جارہا ہے۔

لیکن بدقسمتی سے داعش کے مقاصد کچھ اور ہیں، اس گروہ کے مقاصد اسلام کو بدنام کرنا، اسے کمزور کرنا اور اسلامی نظام کو ختم کرنا ہیں۔

۲۰ سالہ جہاد کے دوران جہادی صفوں کو مضبوط کرنے، حملہ آوروں امریکہ، نیٹو اوران کے دیگراتحادیوں سے مقابلہ کرنے کی بجائے یہ گمراہ گروہ مجاہدین اور ان لوگوں کے خلاف کھڑے ہوئے اور ان سے جنگ کی جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام اورامت مسلمہ کی آزادی کے لیے قربان کیں۔

داعشی خوارج کے بنیادی مقاصد اپنے آقاؤں کے حکم سے اس اسلامی اور مقدس نظام اور اسلامی امارت کو کمزور کرنا اور اسلام کو بدنام کرنا ہے، جان لیں کہ یہ اہداف قیامت تک حاصل نہیں ہوں گے کیونکہ اس سرزمین میں اسلام کے فرزند ابھی زندہ ہیں۔ انشاءاللہ

Author

Exit mobile version