داعشی خوارج: باطل گروہوں کے سرغنہ

ماہر بلال

ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ حق کے معیار کے مطابق نظام اور تنظیمیں زیادہ پائیدار اور مربوط ہوا کرتی ہیں، لیکن باطل کے پلڑے میں موجود جماعتیں، کبھی بھی اس معیار پر پورا نہیں اتر سکتیں اور بہت جلد زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔

عین اسی طرح داعشی خوارج بھی آغاز سے انجام تک، نہ تو حق کے معیار کے مطابق تھے اور ہیں، اور نہ ہی باہم مربوط ہیں، کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو دیگر مؤمنین کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ، قوت و تسلط کے حصول کی خاطر اپنے قریبی خوارج کی جانب بھی اپنے اسلحے کا رخ کر دیتے ہیں، کثیر تعداد کو قتل کرتے ہیں، ان کی تکفیر کرتے ہیں اور چند ایک کو اپنی صفوں سے نکال دیتے ہیں۔

داعشی خوارج سے حق پرست لوگوں کی علیحدگی بھی ایک علیحدہ بحث ہے جو اس موضوع کو مزید وسعت دیتی ہے، خوارج کے گروہ سے علیحدہ ہونے والے علماء، نوجوانوں اور دیگر نے خود کو آزاد کر لینے کے بعد، خوارج کے حوالے سے عجیب حقائق کا اظہار کیا ہے جن کو بیان کرنے سے انسان شرم سے غضب تک پہنچ جاتا ہے۔

ان حقائق میں، زنا، چوری، اغوا، لواطت، بھتہ خوری، سمیت وہ تمام بد بختیاں شامل ہیں جن کی وجہ سے یہ لوگ اس بدبخت خوارجی گروہ سے خود کو علیحدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔

بحثیت مجموعی، اگر خوارج برحق ہوتے، تو ان کے قائدین ایک واضح اور واحد حکمت عملی کی بنیاد پر عمل کر رہے ہوتے، اور ان کے اعمال اور نظریات کے حوالے سے اختلافات کم از کم کسی سطح پر پہنچ چکے ہوتے، لیکن داعشی خوارج باطل گروہوں کے سرغنہ ہیں اسی لیے تو ہر وقت انتشار کا شکار رہتے ہیں اور اس وقت اپنی بقاء کی جستجو میں ہیں۔

مختصر یہ کہ بیرونی منصوبے ہمیشہ نامکمل ہی ہوا کرتے ہیں، صرف کسی مخصوص ہدف کے حصول کے لیے ترتیب دیے جاتے ہیں۔ جب ہدف حاصل ہو جاتا ہے تو منصوبہ ساز ہدف پر کام کرنے والوں کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور پھر وہ زیر و زبر ہو جاتے ہیں جیسے داعشی خوارج ہوئے۔

امریکہ اور یہودیوں نے اس سے فائدہ اٹھانے کے بعد اس منصوبے کو نامکمل چھوڑ دیا ہے، ایسے کہ نہ یہ مرتا ہے اور نہ ہی سانس لینے کے قابل ہے، بس اپنے غلاموں (پاکستان، تاجکستان وغٰرہ) کے حوالے کر دیا گیا ہے، تاکہ اب وہ اس کو پالیں جبکہ ان کی طرف سے براہ راست مدد سے محروم ہو جائے۔

Author

Exit mobile version