ابو مصعب زرقاوی کی شہادت کے بعد قیادت نے عراقی مجاہدین کے لیے ابو حمزہ کو امیر مقرر کیا ابو حمزہ نے عراقی مجاہدین کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے لیے عراق کی تمام سنی تنظیموں کو اکٹھا کر کے مجاہدین شوریٰ کونسل تشکیل دی، اور اس کا امیر ابو عمر البغدادی کو بنا دیا۔ اس کے بعد القاعدہ کی جانب سے عراق میں تنظیم کے امیر ابو حمزہ المہاجر تھے جبکہ شوریٰ مجاہدین کونسل نامی اتحاد کے امیر ابو عمر البغدادی تھے۔ ۲۰۰۶ء میں ابو بکر بغدادی نے اپنی تنظیم ’’جیش اہل السنۃ والجماعۃ‘‘ کو شوریٰ مجاہدین کونسل میں شامل کر دیا۔ اس کی شمولیت کے بعد نامعلوم اور مشکوک وجوہات کی بنا پر شوریٰ میں دولۃ کے قیام کی آواز اٹھنے لگی لیکن تنظٰم القاعدہ اس رائے کے ساتھ موافق نہ تھی۔ ابو حمزہ المہاجر نے اتحاد کو قائم رکھنے کی خاطر تنظیم کی مرضی کے خلاف اور انہیں اطلاع دیے بغیر دولۃ کے قیام کی حمایت کر دی اس طرح ۲۰۰۶ء میں دولۃ الاسلامیہ فی العراق کا قیام ہوا جس کا امیر ابو عمر البغدادی کو بنا دیا گیا۔
دولۃ عراق کے قیام کے بعد بہت مشکوک انداز میں ابو بکر بغدادی کی حیثیت بڑھتی چلی گئی اور وہ شخص جو ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ شوریٰ مجاہدین میں شامل ہوا تھا اور جس کا کوئی خاص اثر و رسوخ اور کام بھی نہیں تھا وہ اچانک اعلیٰ سطح کے ذمہ داران میں شمار ہونے لگا۔
پھر سب سے مشکوک کام ۲۰۱۰ء میں ہوا جب اچانک ایک امریکی حملے میں ابو حمزہ المہاجر اور ابو عمر البغدادی شہید کر دیے گئے نہ صرف یہ بلکہ اس سے بھی زیادی عجیب بات یہ ہوئی کے ان کی شہادت کے ساتھ ہی دولۃ عراق کی شوریٰ کے ۱۶ ارکان بھی گرفتار ہو گئے وہ سب ارکان جو ابو بکر بغدادی کے امیر بننے میں رکاوٹ بن سکتے تھے۔
اس طرح ۲۰۱۰ء میں ابو بکر البغدادی دولۃ الاسلامیہ فی العراق کا امیر بن گیا۔ بغدادی کے آنےکے بعد پرانے بعث پارٹی کے افراد آنا شروع ہوگئے، یہ وہی لوگ تھے جو صدام کی فوج میں تھے اور ان کی اکثریت کمیونزم کے پیروکار تھی۔
ابوبکر بغدادی نے جنگی کمان ان نئے آنے والے بعثی جرنیلوں کو سونپ دی، اس طرح بعث پارٹی کے افراد کو عراقی عوام اور مجاہدین سے اپنا بدلہ لینے کا موقع مل گیا۔
قاعدۃ الجہاد کے وہ تمام اہم راہنما جن کی زندگیاں جہاد، ہجرت اور علم میں گزری تھیں انہیں مہم عہدوں سے ہٹالیا گیا اور ایک دم مجاہدین کے راہنماوں کو ٹارگٹ کیا جانے لگا۔ ان کی جگہ بعثی جنرلوں کو اہم عہدوں پر فائز کردیا گیا۔
ابوبکر بغدادی نے اپنے خلیفہ اور امیرالموؑمنین ہونے کا اعلان ایسے وقت میں کیا جب داعشی خوارج اپنے عروج پر تھے، ان کی خلافت کی خبریں دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئیں، ان کے پاس میڈیا کے شعبے میں ماہر اور تجربہ کار افراد تھے جن کے ذریعے بین الاقوامی سطح پرانہیں پذیرائی ملی اور انہوں نے کم وقت میں پوری دنیا سے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کیا، یوں ہر جانب سے نوجوان عراق کی جانب روانہ ہونے لگے۔
عالم اسلام میں مغربی اور طاغوتی نظاموں کی حاکمیت، مسلمان ودین اسلامی کی محکومیت کی وجہ سے عام مسلمان اپنی حکومتوں سے نالاں تھے، بغدادی کے اعلان خلافت کے ساتھ ہی لوگوں میں اسلامی خلافت کی امید جاگ اٹھی اور وہ ایک عالیشان خلافت اسلامی کے خواب دیکھنے لگے، یہی وقت تھا جب دولۃ اسلامیہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی شہہ سرخیوں کی زینت بنی۔
اس دوران داعشی خوارج مسلسل اپنی خبریں، ویڈیوزودیگرنشریات پھیلارہے تھے، جس کا نتیجہ تھا کہ پوری دنیا سے نوجوانان امت عراق کی جانب ٹوٹ پڑے، اپنی شاندار زندگیاں، بیوی بچے جہاد اور شہادت کی امید پر چھوڑ بیٹھے، ان بیچاروں کو کیا خبر تھی کہ وہ جہاد کے بجائے ایک بڑے فتنے کا شکار ہونے جارہے ہیں۔