داعشی خوارج کے ذرائع آمدن کی نوعیت! چھٹی قسط

حجاز تمیم

غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے مالی امداد:

جیسا کہ سب جانتے ہیں، داعش نے مالی خود کفالت حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا ہے۔ اسی طرح، مغربی دنیا نے بھی ہمیشہ اپنے مفادات کے مطابق اس گروہ کو مالی وسائل فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں کچھ غیر ملکی کمپنیوں کے نام دیے جا رہے ہیں جنہوں نے مختلف حیلوں اور پسِ پردہ داعش کو لاکھوں ڈالر کی مالی امداد فراہم کی ہے۔

۱۔ فرانسیسی سیمنٹ ساز کمپنی (لافارژ):

اس کمپنی نے داعش کو 6 ملین ڈالر سے زائد رقم دی۔ رپورٹس کے مطابق، یہ بات واضح ہے کہ داعش اور اس فرانسیسی کمپنی کے درمیان دو طرفہ تعلقات موجود تھے۔ داعش نے خام مال کی خریداری، سیمنٹ کی فروخت اور ملازمین کی حفاظت کے حوالے سے اس کمپنی کے ساتھ تعاون کیا، جبکہ دوسری طرف لافارژ نے بھی داعش کے ساتھ اس لیے تعاون کیا تاکہ ترکی سے آنے والے سستے سیمنٹ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا سکیں۔

اخبار دی گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق، لافارژ نے ۲۰۱۳ اور ۲۰۱۴ کے درمیان شمالی شام میں اپنی فیکٹری کو فعال رکھنے کے لیے داعش کو لاکھوں ڈالر دیے۔ یہ رقم اس مقصد کے لیے دی گئی تھی تاکہ کمپنی خام مال خرید سکے، سیمنٹ فروخت کر سکے اور اپنے ٹرکوں کے لیے محفوظ آمد و رفت کو یقینی بنا سکے۔

لافارژ کمپنی کا شام میں کردار:

لافارژ کی شام میں ذیلی شاخ کے ڈائریکٹر، برونو پشکو، مسلسل اپنے ساتھیوں کو ہدایت دیتے رہے کہ ان معماملات کی معلومات کسی کو نہ دی جائیں۔ کمپنی کے اندرونی ای میلز سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پیرس میں موجود مرکزی دفتر کے اعلیٰ حکام ان معاملات سے باخبر تھے اور وہ ثبوت چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔

سال ۲۰۲۲ء میں، امریکہ میں لافارژ کو دہشت گردی کی حمایت کے الزام میں مجرم قرار دیا گیا اور اس پر ۷۷۸ ملین ڈالر جرمانہ عائد کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی کمپنی کو داعش جیسے گروہ کو مالی معاونت فراہم کرنے کے جرم میں سزا دی گئی ہو۔ اسی کمپنی کے اقدامات کی وجہ سے یزیدی اقلیت کے ۸۰۰ سے زائد افراد، جنہوں نے داعش کے ہاتھوں سنگین مظالم جھیلے تھے، نے بھی امریکہ میں لافارژ کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور ہرجانے کا مطالبہ کیا۔

فرانس میں بھی لافارژ پر انسانیت کے خلاف جرائم میں معاونت کے الزام میں قانونی کارروائی جاری ہے۔ کمپنی کا مرکزی ادارہ ہولسیم، جس نے ۲۰۱۵ء میں لافارژ کو خرید لیا تھا، کا کہنا ہے کہ انہیں شام میں ان معاملات کی کوئی خبر نہیں تھی اور یہ سرگرمیاں ان کے علم کے بغیر انجام دی گئیں۔

یہ کیس دنیا بھر میں کام کرنے والی بڑی کمپنیوں کی ذمہ داری اور شفافیت سے متعلق کئی اہم سوالات کو جنم دیتا ہے، خصوصاً جب وہ جنگ زدہ علاقوں میں کام کر رہی ہوں۔

۲۔ ٹوئٹر (موجودہX ):

ٹائم میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق، ۲۰۱۶ء میں امریکی ریاست فلوریڈا کی ایک خاتون، تمارا فیلڈز، نے ٹوئٹر کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ ٹوئٹر نے داعش کو بھرتی، مالی مدد اور پروپیگنڈے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کیا، جس سے اس تنظیم کو پھیلنے میں مدد ملی۔ اس مقدمے کے مطابق، داعش کے رہنماؤں کو ٹوئٹر کے ذریعے اپنے پیغامات پھیلانے، فنڈز جمع کرنے اور نئے افراد بھرتی کرنے کا موقع ملا۔

اگرچہ ٹوئٹر نے اس مقدمے کو مسترد کر دیا، لیکن اس قضیے نے ٹیکنالوجی کمپنیوں کی ذمہ داری اور داعش کے ساتھ ممکنہ تعاون کے حوالے سے سنجیدہ بحث کو جنم دیا ہے۔

۳۔ فیس بک اور گوگل:

سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکہ کی ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں ہونے والے حملے کے متاثرین کے اہلِ خانہ نے فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کمپنیوں نے داعش کو پروپیگنڈہ، مالی معاونت اور افرادی قوت کی بھرتی کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا، جس کے نتیجے میں داعش کی طاقت میں اضافہ ہوا اور دہشت گردانہ حملے ممکن ہوئے۔

ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے داعش نے اپنے پیغامات پھیلائے اور نئے افراد کو اپنی صفوں میں شامل کیا۔

یاد دہانی:

۱۲ جون ۲۰۱۶ کو امریکہ کی ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں واقع ہم جنس پرستوں کے ایک نائٹ کلب ’’پلس‘‘ پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔ یہ حملہ امریکی تاریخ کی سب سے ہولناک اجتماعی فائرنگ شمار کی جاتی ہے، جس میں ۴۹ افراد ہلاک اور ۵۳ زخمی ہوئے۔

۴۔ تواسول کمپنی:

امریکی محکمہ خزانہ کی ۲۰۱۸ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، تواسول نامی کمپنی، جو شام میں سرگرم ہے، نے داعش کو مالی، مادی، اور تکنیکی معاونت فراہم کی ہے۔ رپورٹس کے مطابق، اس کمپنی کو داعش کے جنگجوؤں کے درمیان رقم کی ترسیل کے لیے استعمال کیا گیا۔

Author

Exit mobile version