داعشی خوارج کے مالی مصادر

ولید ویاڑ

داعشی منصوبے کی ایجاد، تاریخ اور سب سے بڑا ہدف و مقصد اسلامی شریعت، اقدار، راہنماؤں اور حقیقی شرعی نظام کو بدنام کرنا ہے۔ انہیں دیے جانے والے کسی بھی صلیبی منصوبے میں مذکورہ اہداف میں کوئی اساسی تبدیلی نہیں آتی ، صرف علاقے، حالات اور مواقع میں تبدیلی کے ساتھ فقط نوعیت میں تبدیلی آتی ہے

باقی سب کچھ اسی ایک اور طے شدہ منحرف راستے پر چل رہا ہے، لیکن پھر بھی الحمدللہ وہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکتے اور بالخصوص افغانستان میں ان کی ہر طرح کی شوم آرزوئیں خاک میں مل چکی ہیں اور وہ اپنے اعمال کی سزا پا چکے ہیں۔

حالیہ بہترین مثال غور اور کنڑ میں امارت اسلامیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے ان کے سیلز کا خاتمہ اور ان کی رسوائی ہے، جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ داعش اپنے اہداف تک پہنچنے کے لیے کسی چیز سے بھی دریغ نہیں کرتے اس لیے ان کے مالی وسائل کے مصادر پر یہاں کچھ روشنی ڈالتے ہیں:

الف۔ غیر ملکی مصادر

غیر ملکی مصادر میں، جو کہ خوارج کے بنیادی مصادر سمجھے جاتے ہیں، در حقیقیت ان کے بانیوں یا مغربی و صلیبی آقاؤں کی امداد اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی جانب سے مختص کی گئی رقوم ہیں جو در حقیقت مغربی ممالک کی خارجہ پالیسی اور اسلامی ممالک کو کمزور کرنے اور اسلام کو بدنام کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

اس میں فقط بلینک چیک یا اگر پالیسی میں کوئی تبدیلی آئے تو اس کے ساتھ مجوزہ منصوبے کے اخراجات فراہم کیے جاتے ہیں جو کہ امریکہ، پاکستان اور برطانیہ کے انٹیلی جنس اداروں اور ایجنٹس کے ذریعے فراہم کیے جاتے ہیں، حتیٰ کے قبضے کے دوران داعشی ان کی براہ راست فوجی اور لاجسٹک حمایت بھی حاصل کر رہے تھے، البتہ اب تک افغانستان میں مارے جانے والے خوارج کی فنڈنگ اور منتقلی کے مصادر تاجکستان اور پاکستان میں ثابت ہو چکے ہیں۔

ب۔ زیر قبضہ وسائل

داعش خوارج بھی اپنے آقاؤں کی جانب سے دیے گئے اہداف کی خاطر فراہم کیے گئے پیسوں میں فراڈ اور کرپشن کرتے ہیں اور اپنے ذاتی کاروباروں اور اپنی عیش و عشرت کی خاطر اپنے پاس بھی مصادر رکھتے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

۱۔ شاہراہوں پر لوٹ مار

اگرچہ خوارج کے پاس افغانستان میں پاؤں دھرنے کی جگہ نہیں اور جیسے ہی سر اٹھاتے ہیں کچل دیے جاتے ہیں، لیکن عراق اور دیگر خطوں میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ یہ ہمیشہ موقع ملنے پر چھوٹی بڑی سڑکیں بند کر کے کسی نہ کسی بہانے سے مسافروں سے پیسے اور مال ہتھیاتے ہیں۔

۲۔ تاریخی نوادرات کی چوری

چونکہ اسلامی ممالک کے اکثر علاقے قدیم تاریخ و عظمت کے نشان اور تاریخی ورثے رکھتے ہیں، داعشی خوارج اپنے مقاصد کی فنڈنگ کے لیے بارہا خفیہ طور پر یا کھل کر یہ تاریخی ورثے چوری کرتے رہے ہیں اور پھر اپنے آقاؤں یا بلیک مارکیٹ میں انہیں بیچ دیتے ہیں۔

۳۔ اغوا اور انسانی سمگلنگ

اغوا خوارج کی فطری عادت ہے، انہوں نے تو بچوں، عورتوں اور بوڑھوں تک کو بھی نہیں چھوڑا، انہیں زور زبردستی سے یا خفیہ طریقے سے اٹھا لیا جاتا ہے اور پھر ان کے خاندان سے بڑی رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور بارہا ایسا بھی ہوا کہ طلب کی گئی رقم حاصل کر کے مغویوں کو بھی مار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی بدنام صفوں میں بچوں کو بھی زور زبردستی سے شامل کیا اور ان سے کام لیا۔

۳۔ بھتہ خوری

کئی مواقع پر، داعشی خوارج نے دولت مند افراد، سرکاری و غیر سرکاری اداروں اور تاجروں سے بھتہ مانگا اور انکار کی صورت میں انہیں قید و قتل کی دھمکی دی، پھر یا تو قتل کر دیا یا پھر لاپتہ کر دیا۔

۴۔ مسلح چوریاں

مسلح چوریاں خوارج کا روزمرّہ کا معمول ہے، انہیں جہاں بھی پیسہ نظر آتا ہے، چاہے گھر ہو ، دکان ہو یا کوئی اور کام کی جگہ، تو اپنے کرائے کے قاتلوں کے ذریعے وہاں سے پیسے ہتھیا لیتے ہیں اور پھر اپنی پناہ گاہوں کی جانب فرار ہو جاتے ہیں۔

۶۔ معدنیات اور قدرتی وسائل کی لوٹ مار

معدنیات اور قدرتی وسائل جو قانون کے مطابق بیت المال میں شمار ہوتے ہیں اور قومی دولت سمجھے جاتے ہیں، خوارج نے بارہا ان پر چھاپے مارے اور اپنے مذموم مقاصد اور ناپاک منصوبوں میں پیش رفت کی خاطر ان سے مادی فائدہ اٹھایا۔

۷۔ غنیمت کے نام پر عوامی دولت کی لوٹ مار

چونکہ داعشی خوارج اپنی جنگوں اور لڑائیوں کو اپنی اصطلاح میں مقدس جدوجہد کے طور پر دیکھتے ہیں، ماضی میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بارہا انہوں نے کسی گاؤں، علاقے یا محلے میں داخل ہونے پر لوگوں کے گھروں، کام کی جگہوں اور جیبوں سے پیسے اور قیمتی سامان اس نیت سے لوٹا گویا یہ غنائم ہیں اور ان کے لیے جائز ہیں۔

Author

Exit mobile version