داعش اور جمہوریت پسندوں کے تعلقات!

ولید ویاڑ

ترکوں کے ہاتھوں عثمانی خلافت کے زوال کے بعد، امریکہ اور مغربی ممالک نے اسلامی ممالک کی تقسیم، سیکولرازم کی طرف میلان، اور کفری مفادات کی وفادار ریاستوں کے قیام کے لیے مختلف حکومتی ڈھانچے ترتیب دیے، جن میں سب سے مشہور نظامِ حکومت ’’جمہوریت‘‘ تھا، جو اصطلاحاً 51 فیصد یا اکثریتی نظریے پر مبنی تھا، مگر حقیقت میں یہ 49 فیصد عوام کے حقوق کو نظر انداز کرنے کے مترادف تھا۔

کئی اسلامی ممالک میں شاید یہ نظام کچھ حد تک جمہوریت کے اصولوں پر قائم تھا، مگر افغانستان میں 2000ء سے لے کر 2021ء تک قائم شدہ جمہوریت ان اصولوں کے خلاف تھی جنہیں جمہوریت پسندوں نے جمہوریت کے لیے ضروری سمجھا تھا، بلکہ یہاں تو جمہوریت کے نام پرجمہوریت کا مذاق اڑانے اور اس پر تضحیک کرنے کے مترادف بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ یہاں ایک جمہوریت کے اندر مختلف قسم کی جمہوریتیں اور مختلف قسم کے افراد کرسی صدارت پر موجود تھے۔

اس جمہوری نظام کی کمزوریوں کی وجوہات کیا تھیں؟ شاید اس کے کئی مقاصد ہوں، لیکن ان میں سے سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ ایسے گروہ تشکیل دیے جائیں جو کسی بھی حالت میں بیرونی طاقتوں کی خدمت کریں اور ان مجاہدین کو دباؤ میں لائیں جو اسلامی عقیدے اورعوامی حمایت کی بنیاد پرحملہ آور کفارکے خلاف لڑتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر تھے اور وہ حملہ آور کفار کی ریشہ دوانیوں کو روکنے کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دے رہے تھے۔

ایسی تنظیموں یاجماعتوں میں سے ایک افغانستان میں داعش خراسان کا گروپ بھی تھا، جو عراقی داعش کی دیکھادیکھی قائم کیا گیا تھا، یہ ایک غیر ملکی گروہ تھا جس کی جڑیں جمہوری حکومت میں پیوست تھیں، اور اس کی معاونت امریکا اور پڑوسی ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے کی جاتی تھی۔

اگرچہ امریکا اور جمہوری حکومت بظاہر اس گروہ کے مخالف تھے اور اس کے خلاف جنگ کر رہے تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ داعش کو جمہوری حکومت اور امریکہ کی مکمل عسکری، مالی معاونت حاصل تھی، تاکہ ایک طرف اپنے قبضے اور فکری مقاصد کو عملی جامہ پہنا سکے اور دوسری طرف طالبان مجاہدین کو زیر کرے، وہ جنگجو جو جمہوری حکومت اور امریکا کی جانب سے(خفیہ طورپر) مکمل عسکری، انٹیلی جنس تعاون، جدید فوجی ٹیکنالوجی اور وسائل بہم پہنچانے کے باوجود (بظاہر)ان کے خلاف لڑنے کی صلاحیت کھو بیٹھے تھے۔

اگرچہ مغربی میڈیا نے اپنے پروپیگنڈے میں داعش کے خلاف ایک وسیع مہم چلائی اور جمہوری فوجوں کی ’’سنجیدہ‘‘ جنگ کی تعریف کی، لیکن پردے کے پیچھے جمہوری حکومت اور داعش کے درمیان مضبوط تعلقات کی کہانیاں چل رہی تھیں، جنہیں امریکا کے ’’محفوظ‘‘ سایے میں پناہ حاصل تھی۔ اس تعلق کی حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے یہاں چند نکات پیش کیے جا رہے ہیں:

۱۔ امر اللہ صالح اور داعش:

امراللہ اس وقت کے صدر اشرف غنی کا نائب تھا، وہ انگلینڈ سے آیا اور اسے اس ملک کی مکمل حمایت حاصل تھی، وہ انٹیلی جنس کے شعبے میں ایک اجرتی ایجنٹ اور جاسوس کے طور پر مہارت رکھتا تھا، اپنے سکریٹری کی مدد سے، وہ داعشی گروپ کے ارکان سے وقتاً فوقتاً ملاقاتیں کرتا تھا، جن میں سے بعض ملاقاتیں صدارتی محل میں بھی ہوتی تھیں۔

پیسے، منصوبے اور عسکری مشورے فراہم کرنے کے علاوہ، امر اللہ صالح نے اپنے آپ کو صاف ستھرا ظاہر کرنے کے لیے ‘شش و نیم’ کے نام سے ایک مخصوص ہدفی قتل کی مہم شروع کی، اس دوران، کئی ایسے فوجی افسران کو قتل کیا گیا جو داعش کے خلاف لڑ رہے تھے، اس کے علاوہ، خود اس کا سیکریٹری اور ذاتی محافظ ثناء اللہ غفاری بھی 2020ء میں داعش کا رہنما اور شہاب المہاجر کے نام سے مشہور ہوا۔

۲۔ رحمت الله نبیل اور داعش:

رحمت الله نبیل جمہوری حکومت میں صدارتی محل کے محافظوں کا سربراہ اور اشرف غنی کے پہلے دور میں انٹیلی جنس ایجنسی کا چیف تھا، نبیل بھی امریکی انٹیلی جنس کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا تھا، لیکن داعش کے ساتھ اس کے مالی، فوجی اور آپریٹو تعاون کا راز اس وقت بے نقاب ہوا جب اس کے معاون، ڈاکٹر ضیاء الدین کمال اور اس کا ساتھی، لوگر صوبے میں امارت اسلامی کے مجاہدین کے ہاتھوں گرفتارہوئے۔

ان میں سے ایک داعشی جنگجو نے اپنے اعتراف میں یہ کہا کہ وہ لوگر میں داعش کو پیسے پہنچانے کے لیے آئے تھے، کابل میں نبیل کے کئی گھروں کو داعشیوں کے لیے مہمان خانوں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور وہ داعشی خود بھی وہاں رہ رہا تھا، اس وقت یہ معاملہ پارلیمنٹ اور میڈیا میں زبردست ہلچل کا باعث بنا، مگر چونکہ اس میں جمہوری حکومت کی بدنامی تھی، اس لیے اس موضوع کو دھونس اور رشوت کے ذریعے ختم کروا دیا گیا۔

۳۔ ننگرهار اور داعش:

ننگرهار وہ صوبہ تھا جہاں داعش نے اپنے عسکری اثر و رسوخ کو قائم کیا اور امارت اسلامی کی سرخ بریگیڈ نے اس کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑی، اس دوران اچین، شینوار اور خوگیانی اضلاع میں انہوں نے داعش کو شکست فاش سے دوچارکیا۔

تاہم کئی ایسے واقعات بھی سامنے آئے جہاں داعشی جنگجو امریکی بمباری، ہیلی کاپٹروں یا جیٹ طیاروں کی بمباری میں امارتی مجاہدین کے محاصرے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے، اور ان کے لیے اسلحہ یا ضروری سامان محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، اس بارے میں اس وقت کی میڈیا رپورٹس اورپارلیمنٹ کے اعتراضات موجود ہیں، جن میں بعض پارلیمانی ارکان اور اجرتی قاتلوں کو بھی جمہوری حکومت نے مختلف علاقوں میں جنگ کے ٹھیکے دیے تھے۔

۴۔ فراه کے عرب شکاری:

کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار حکومت میں بہت سے عرب شہری افغانستان سیاحت اور سرمایہ کاری کے بہانے آ تے تھے، اشرف غنی کے دور حکومت میں میڈیا میں رپورٹیں سامنے آئیں کہ کچھ عرب فراه اور نیمروز میں شکار کو فروغ دینے کے لیے آئے ہیں، جہاں وہ شکار کرتے اور کچھ پرندے بھی پالتے ہیں۔

انہوں نے وہاں کیمپ لگائے اور جمہوری حکومت نے ان کے لیے سخت سیکیورٹی انتظامات کیے، لیکن بہت کم وقت میں ان کیمپوں اور آس پاس کے علاقوں سے داعش کے دہشت گرد نکلے اور علاقے کو اپنی سرگرمیوں سے غیر محفوظ کردیا۔ بعد ازاں امارت اسلامی کے مجاہدین نے مختصر وقت میں ان کے عسکری سرگرمیوں کا خاتمہ کر دیا۔

۵۔ دینی علماء کو نشانہ بنانا اور مساجد کو تباہ کرنا:

اس مقصد کے لیے کہ امارت اسلامی اور مجاہدین کو بدنام کیا جائے، جمہوری حکومت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے متعدد دینی علماء، مساجد اور قبائلی رہنماؤں پر حملے کیے اورالزام یہ لگایا کہ یہ سب امارت اسلامی کی کارروائیاں ہیں جو اسلام اور اس کی تعلیمات کے خلاف ہیں، لیکن اتنی زیادہ عدم ہم آہنگی تھی کہ ایک ہی وقت میں داعش کے خوارج بھی ان حملوں کی ذمہ داری لیتے تھے، اور اس طرح ایک ہی وقت میں ایک حملے کو مختلف جہتیں حاصل ہوتیں۔

وزیر اکبر خان کی جامع مسجد کے امام ڈاکٹر نیازی پر حملہ، کابل یونیورسٹی کے دو اساتذہ پر حملہ، خود کابل یونیورسٹی پر حملہ، ڈاکٹر باقی امین اور دیگر بزرگ علماء پر حملے، یہ سب جمہوری حکومت اور داعش کے مشترکہ وحشیانہ اقدامات تھے، جن کے بارے میں امارت اسلامی نے کبھی بھی ذمہ داری قبول نہیں کی، بلکہ ان حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی۔

۶۔ مقاومتیوں اور داعش کا اتحاد:

جب جمہوری حکومت زوال کا شکار ہوئی اور اس کے بھگوڑے فوجیوں اور جمیعتی یا شورای نظار کے رہنماؤں نے پنجشیر کو امارت اسلامی کے مجاہدین کے خلاف جنگ کے لیے منتخب کیا، تو انہوں نے سب سے پہلے یہ اقدام کیاکہ جمہوری حکومت کے بھگوڑے ارکان اور داعش کے درمیان ایک مشترکہ جنگی اتحاد بنایا۔

اس وجہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اتحاد سابقہ تعلقات اور تعاون کے بغیر یکدم اتنی جلدی قائم ہونے کا امکان نہیں تھا، مگر خوش قسمتی سے یہ تمام خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے اورامریکی کانگریس کے ارکان کی وہ درخواست بھی ناکام ہوئی کہ پنجشیر میں امداد اور تعاون کے لیے ایک محفوظ علاقہ قائم کیا جائے، حقیقت یہ تھی کہ یہ محفوظ علاقہ دراصل خوارج کے لیے ایک پناہ گاہ تھا؛ جمہوری حکومت کے اتحادی پہلے سے ہی اپنے اوپر ان کا اعتماد کھو چکے تھے۔

مذکورہ معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ممکن نہیں تھا کہ داعشی خوارج اُس وقت کی جمہوری حکومت اورامریکی انٹیلی جنس سے الگ کوئی گروہ تھا، کیونکہ آج تک کوئی ایسی مثال موجود نہیں کہ داعش کی طرف سے جمہوری افواج یا امریکیوں کو مالی یا جانی نقصان پہنچایا گیا ہو۔

بلکہ داعش نے ہمیشہ سےاپنے آقاؤں کے مقاصد اور مفادات کی حفاظت کی اور اس کے برعکس اسلام، امارت اسلامی کو بدنام کرنے کے لیے ہرطرح کی کوشش کی، افغان مسلمان قوم کو سنی، شیعہ کے مابین تقسیم کرنے کی کوشش کی اور افغان عوام پر شدید مظالم ڈھائے، جس کی واضح مثالیں ننگرہار کے شینواری، اچین اور خوگیانی کے علاقے ہیں، یہ وحشت بھرے مظالم ہمیشہ کے لیے داعش کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ رہیں گے۔

Author

Exit mobile version