داعش اور جہاد؟!

اسلم خراسانی

جہاد بظاہر ایک عام سا مبارک اور پاکیزہ لفظ ہے، لیکن معنوی لحاظ سے یہ ایک نہایت اہم اور عظیم موضوع ہے، جس کا اسلام، مسلمانوں اور اسلامی سرزمینوں یا نظام کی شناخت اور شخصیت سے گہرا تعلق ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے قیامت تک کے لیے جہاد کے دروازے کھلے رکھے ہیں، تاکہ اسلام اور مسلمانوں کی عزت، وقار اور برتری قائم رہے، وہ دیگر اقوام و ممالک پر غالب رہیں اور غلامی و اسارت کے پنجوں اور اثرات سے محفوظ رہیں۔

تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اسلامی معاشرے اور حکومتیں اس وقت تک کفار پر غالب، بااثر اور باعزت رہیں جب تک ان کے ہاتھوں میں جہاد کی تلواریں تھیں، ان کی زبانوں پر اللہ اکبر کے حیات بخش نعرے تھے اور وہ اپنے رب سے فتح، نصرت اور ہر ظالم و جابر طاقت پر غلبے کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ لیکن جب انہوں نے کفار سے دوستی اور قربت کی قیمت پر اپنی پاکیزہ تلواریں نیام میں ڈال دیں اور جہاد کو اپنی تباہی یا پسماندگی کا سبب سمجھنا شروع کیا، تو درحقیقت انہوں نے غلامی کے بھاری طوق اپنے گلے میں ڈال لیے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا اسلامی اقدار اور اسلامی نظامِ حکومت سے تعلق بھی کمزور پڑ گیا۔

جہاد اور جہادی جدوجہد کی اہمیت اور اثرات کو دیکھتے ہوئے کفار اور مشرکین نے بھی اس نکتہ کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ مسلمانوں کی سربلندی اور ان کے غلبے کا ایک بنیادی سبب جہادِ فی سبیل اللہ ہے اور یہی راستہ مسلمانوں کی عزت اور کفار کی ذلت کا ذریعہ بنا ہے۔ اسی لیے دنیا کے تمام کفار اور ان کے خفیہ ادارے ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دلوں سے آہستہ آہستہ جہادی روح ختم کر دیں، ان کی توجہ دیگر مشغولیات کی طرف موڑ دیں اور ایسا وقت آ جائے کہ ان کے دلوں پر دنیا کی محبت غالب آجائے، وہ موت سے ڈرنے لگیں اور جہاد انہیں تباہی و بربادی کا ایک خوفناک منظر دکھائی دے۔ افسوس کہ وہ اپنی اس سازش میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔

جہاد اور مجاہدین کو بدنام کرنے اور ان پر تنقید کرنے کے لیے کفار کے منصوبے بہت وسیع اور گہرے تھے۔ ان میں ایک طریقہ جہاد مخالف پروپیگنڈہ تھا، جبکہ دوسرا طریقہ ایسی خارجی (خوارج) گروہوں کا قیام تھا جو بظاہر اسلامی شکل و صورت رکھتے ہیں، لیکن حقیقت میں اسلام کی جڑیں کاٹنے والے اور اس کی بنیادوں کو مسمار کرنے والے ہوتے ہیں۔ داعش جیسی خارجی تنظیم بھی کفار کی انہی جدید سازشوں کا حصہ ہے۔

داعشیوں نے اپنی ظاہری شکل و صورت سنوارنے اور اپنے خونریز و بدنام ماضی اور اعمال کو چھپانے کے لیے سب سے پہلے جہاد اور خلافت جیسے پاکیزہ الفاظ کو استعمال کیا۔ انہوں نے بعض سادہ دل مسلمانوں کو یہ تاثر دیا کہ گویا وہ حقیقی اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں اور جو کچھ وہ لوگوں پر ہتھیار اور جبر کے ذریعے مسلط کرتے ہیں، درحقیقت وہی اصل اسلامی جہاد کا تسلسل ہے۔

ان کے آقاؤں کا اصل مقصد یہ تھا کہ داعشی جنگجو پیسوں اور اسلحے کے زور اور جہاد کے نام پر ایسی حرکتیں کریں کہ لوگ اسلام کی اصل روح اور جہاد کی حکمت سے ناواقف رہیں، اور بالآخر جہاد جیسے مقدس لفظ سے ہی متنفر ہو جائیں۔

کابل کی جمہوری حکومت کے دور میں داعش کے مظالم نے نہ صرف منگولوں کے ظلم و ستم کی تاریخ تازہ کر دی، بلکہ بعض علاقوں میں انہوں نے اپنے پشت پناہوں (یعنی بیرونی قابضین اور جمہوری حکومت کے خفیہ اداروں) کی مدد سے لوگوں کے سروں کے مینار بنا دیے۔ انہوں نے عورتوں اور عوام کے اموال و دولت کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹا اور اپنی ظالمانہ کارروائیوں پر اللہ اکبر کا مقدس نعرہ لگایا۔

انہوں نے اپنی ان وحشیانہ حرکتوں کو جہاد کا نام دیا، جس کے نتیجے میں بہت سے سادہ لوح افراد اور غیر مسلم، جو جہاد کے بنیادی اصولوں اور مقاصد سے ناآشنا تھے، ان کے ذہنوں میں جہاد کا ایک مسخ شدہ اور خوفناک تصور بیٹھ گیا۔

داعشیوں نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ گویا جہاد صرف قتل و غارت، ظلم اور تباہی کا نام ہے۔ ان خوارج نے اس مقصد کے لیے اپنے جذباتی نوجوانوں اور یرغمال بنائے گئے افراد کو زبردستی اور پیسوں کے ذریعے استعمال کیا۔ انہوں نے مساجد، مزارات اور دیگر مقدس مقامات کو دھماکوں سے اُڑایا، مذاکرات، مصالحت اور فلاحی سرگرمیو‌ں میں مصروف علماء کرام اور قومی مشران کو شہید کیا۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مسجدوں کو شہید کرنا، ربانی علماء کو قتل کرنا، معصوم بچوں، بوڑھوں اور بزرگوں کو ظالمانہ طریقے سے نشانہ بنانا؛ ان کے نزدیک یہ سب کچھ جہاد تھا۔ حالانکہ یہ دراصل ان کے آقاؤں کا اصل منصوبہ تھا، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ اصل جہاد کو عوام کی نظروں میں اتنا بدنام کیا جائے کہ پھر کوئی مسلمان اس مقدس فرض کی ادائیگی کی طرف قدم نہ بڑھائے۔

مختصراً، داعشی خوارج نے جس طرح اپنے آقاؤں کی مدد سے دیگر اسلامی شعائر اور اقدار کو پامال کیا، اسی طرح انہوں نے جہاد جیسے مقدس تصور کو بدنام کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کے بارے میں ایسا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں کہ انہوں نے جمہوری حکومت کے دور میں افغانستان، یا اپنے اصل مراکز یعنی عراق اور شام میں کسی بیرونی قابض کافر فوجی کو نشانہ بنایا ہو یا اُن کے اڈوں اور قافلوں پر کوئی حملہ کیا ہو، حالانکہ یہی اصل جہاد تھا۔

افغانستان میں کئی ربانی علماء ایسے ہیں جنہیں داعشی خوارج نے شہید کیا اور اپنے اس ظالمانہ فعل کو جہاد کا نام دیا۔

عام مسلمانوں کو بیدار اور ہوشیار رہنا چاہیے کہ داعش ایک مغربی سازش کے طور پر پہلے جہاد کی توہین کے ذریعے اس کی نظریاتی بنیاد اور روح کو ختم کرتی ہے اور بعد میں مختلف نعروں اور عنوانات کے تحت اپنے آقاؤں کے اشارے پر اصلی مجاہدین اور جہادی مراکز کو لوٹتی اور تباہ کرتی ہے۔ اس کی واضح مثال افغانستان کے دونوں جہادوں کے ممتاز اور دلیر مجاہد شہید خلیل الرحمن حقانی کی شہادت ہے، جو ایک مقدس مقام، مسجد میں ہوئی؛ جس واقعے نے بہت سے لوگوں کے سامنے داعش کی گھناؤنی حقیقت کو عیاں کردیا۔

خوش قسمتی سے، امارتِ اسلامی کی جہادی جدوجہد، قربانیاں، ہجرتیں اور مجاہدین کی خدمات آج کی نوجوان افغان نسل کے سامنے عملی طور پر موجود ہیں اور اسی وجہ سے اب حقیقی اور جعلی (دستوری) جہاد میں تمییز ممکن ہو چکی ہے۔ اس معاصر فتح کے نتیجے میں داعش کی روح ختم ہو چکی ہے اور اب وہ مزید جہاد جیسے مقدس شعار کو اپنی مکروہ کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں کر سکتی۔

Author

Exit mobile version