داعش شکست کے دہانے پر

علی انصار

#image_title

داعش نامی خرافاتی گروہ، جس کا مقصد اسلام کو تباہ کرنا، اسے بگاڑنا، اسلامی اقدار کی توہین کرنا اور مسلمانوں کو قتل کرنا ہے۔ حال ہی میں یہ گروہ مختلف شر پسند ممالک بالخصوص پاکستان، امریکہ اور تاجکستان کی انٹیلی جنس کا آلہ کار بن چکا ہے۔

 

یہ گروہ پہلے عراق اور شام میں ظاہر ہوا لیکن وہاں پے در پے ناکامیوں کے بعد افغانستان میں 20 سالہ امریکی قبضے اور جمہوری دور کی کٹھ پتلی اور کرائے کی انتظامیہ نے ان کی توجہ افغانستان کی طرف موڑ دی۔

 

شروع میں تو اس گروہ نے اپنے آپ کو خلافت اسلامیہ کے وارث، اسلامی اقدار کے پابند اور موجودہ امریکی قبضے کے خلاف جہاد کرنے والے کے طور پر متعارف کرایا، لیکن جلد ہی ان کا اصل شریر اور فریب کار چہرہ لوگوں کے سامنے آ گیا، تمام لوگ جان گئے کہ؛ داعش اسلامی خلافت کی وارث نہیں بلکہ دشمن ہے ، اسلامی اقدار کی پابند نہیں بلکہ اسے ختم کرنے والا گروہ ہے اور امریکی قبضے کے خلاف جہاد کرنے والی نہیں بلکہ اس قبضے کو جاری رکھنے کی کوشش کرنے والا گروہ ہے ۔

 

اُس وقت امارت اسلامیہ افغانستان، جمہوری دور کے کٹھ پتلی اداروں ، امریکی فوجیوں اور دیگر شر پسند قوتوں سمیت داعش نامی فرضی گروہ سے بھی لڑ رہی تھی اور ان سب کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

 

جمہوری حکومت کے سقوط کے ساتھ ہی اس فتنہ پرور گروہ داعش کی جڑیں بھی کٹنے لگیں ، مگر چونکہ موجودہ دور میں اسلامی نظام کا واحد مرکزی مقام افغانستان ہے، چنانچہ افغانستان اور اسلامی نظام کو تباہ کرنے کے لیے کفار اور ان کے نام نہاد مسلمان غلام ممالک کی شیطانی مثلث یعنی تاجکستان، پاکستان اور امریکہ کی مدد سے گروہ داعش ایک بار پھر پرورش پانے لگا ہے۔

 

داعش کی مالی معاونت، منصوبہ بندی اور سازشیں زیادہ تر امریکہ کے ذمہ ہیں، تاجکستان میں داعش کے لیڈر اور کرائے کے مبلغ، نوجوانوں کو ورغلاتے ہیں اور پاکستان میں ان کو تعلیم اور ٹریننگ دی جاتی ہے اور پھر انہیں پاکستان سے افغانستان اور خطے کی دیگر ممالک میں تخریب کاری کے لیے بھیجا جاتا ہے ۔

 

افغانستان میں داعش کا مرکز جمہوری حکومت کے زمانے سے ننگرہار شہر رہا ہے کیونکہ جمہوری دور میں حکومتی رہنماؤں نے پیسوں کے عوض داعش کو مراکز، مہمان خانے ، پناہ گاہیں اور مکانات دیے تھے۔

 

لیکن امارت اسلامیہ افغانستان کی آمد کے ساتھ ہی ان کے مراکز، مہمان خانے، پناہ گاہیں اور مکانات بہت جلد معلوم ہوگئے اور تباہ کردئیے گئے۔

 

اب ان میں لڑنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی ، اور افغانستان میں یہ گروہ چند جاہل نوجوانوں، چوروں، اور بے روزگاروں پر مشتمل ہے جن کا مقصد جہاد کے نام پر چند روپے کمانا، مسلمانوں کو قتل کرنا اور اسلامی نظام کو تباہ کرنا ہے۔

 

ان کے نزدیک کسی کے لیے امان نہیں ہے ۔ دہشت گردی ان کا طریقہ کار، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کرنا ان کی بہادری اور اسلامی اقدار کی توہین ان کا ہدف ہے۔

 

لیکن ہمیشہ کی طرح آج بھی یہ اپنے منصوبوں میں ناکام ہورہے ہیں، اور مسلسل شدید ناکامیوں اور نقصانات سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے یہ ذہنی طور پر پاگل ہوچکے ہیں۔

 

کچھ عرصہ قبل امارت اسلامیہ کے خصوصی دستوں کے آپریشن کے دوران ننگرہار کے ضلع مومنددرہ میں داعش کے ضلع اچین کا جنگی ذمہ دار ابو شبیر ہلاک ہو گیا تھا۔

 

بعد ازاں کابل اور تخار شہر کے مرکز میں اسپیشل سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے دوران ان کے متعدد خفیہ مجموعوں اور گروپوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

 

ان شاءاللہ ! افغانستان میں یہ فتنہ پرور گروہ ہمیشہ ناکام رہے گا، اس کے لیڈر مارے جائیں گے اور اس کے افراد کو بھی جلد معلوم ہو جائے گا کہ انہیں جہاد کے نام پر ظلم و سربریت اور قتل و غارت گری کے لیے دھوکے میں رکھا گیا تھا۔

Author

Exit mobile version