داعشی تنظیم، جو اپنی تمام جنگیں عالمی اسلامی خلافت کے قیام کے عنوان کے تحت لڑ رہی تھی، درحقیقت عالمی جہاد کے راستے میں کئی سنگین رکاوٹیں اور مسائل پیدا کر رہی تھی، جس کے نتیجے میں عالمی جہاد کے حوالے سے امت مسلمہ میں جو تحریک و شعور پیدا ہوا تھا، وہ شدید دھچکے سے دوچار ہوا۔
داعشی فتنہ گروں نے عالمی جہاد کے تصور میں بنیادی تبدیلی کی کوشش کی، انہوں نے اپنی مذموم کارروائیوں میں جہاد کی تعریف یہ کی کہ غیر سنی مسلمانوں سے جنگ جہادہے، گویا داعش نے افراد کی تعداد بڑھانے کے لیے مذہبی اختلافات اس حد تک بڑھا دیے کہ مسلمانوں کے درمیان خلافت کے قیام کے بجائے تفریق اور الحاد کی کوششیں شروع ہو گئیں۔
داعشي فتنہ گروں نے عالمی جہاد کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے، اپنے زیرِ کنٹرول علاقوں کی توسیع کے دوران سب سے پہلے القاعدہ تنظیم سے اختلاف کیا، وہ القاعدہ جو دہائیوں سے ایک سالم عقیدے اور اسلامی اصولوں کے تحت عالمی جہاد کے حوالے سے بہت منظم کام کر رہی تھی، داعش نے اپنے ہتھیاروں کا رخ صلیبیوں کی بجائے القاعدہ کی طرف موڑ لیا۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد، صلیبیوں نے مؤثر فکری جنگ کے ذریعے مسلمانوں کو جہاد سے غافل کردیا، لیکن اب داعش نے عالمی جہاد کے نام پر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کے قتل عام سے عالمی جہاد کے نام کو بدنام کیا۔
داعش نے دیگر جہادی گروپوں کے درمیان تنازعات پیدا کرنے اور ان کی صفوں میں انتشار پھیلانے کے لیے باقاعدہ منظم طریقے سے کام کیا اور اس کے لیے وسیع مذہبی مباحثے شروع کیے تاکہ وہ اپنے داخلی اختلافات، جھگڑوں حتیٰ کہ جنگوں میں مصروف رہیں۔ جس کا نتیجہ بالآخر داعش کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا، انہوں نے دیگر جہادی تحریکوں کو عالمی جہاد سے غافل کرکے انہیں اپنے داخلی مسائل میں مشغول کر دیا۔
مجموعی طور پر داعش عالمی جہاد کے حوالے سے غلط اور منفی مفہوم پھیلانے کا سبب بنی ہے، اس لیے اب فعال جہادی جماعتیں اس کوشش میں ہیں کہ ان غلط مفاہیم اور تشریحات کو ختم کریں، عالمی جہاد کے بارے میں صحیح ذہنیت تشکیل دے کر عالمی جہاد کا آغاز کریں، تاکہ طویل مدت سے جاری امت کی مشکلات کا خاتمہ ہوسکے۔