داعش نامی وبا | آٹھویں قسط

✍️ ابو ھاجر الکردی

۲۰۱۴ء میں داعش کی جانب سے جن بھی جرائم کا ارتکاب کیا گیا وہ در حقیقت جہادی تحریکات اور بغدادی کے پیروکاروں کے درمیان ایک وسیع تر تصادم کا آغاز تھا۔
جب مجاہدین نے ان کی جانب سے غداری کو محسوس کیا تو بشار الاسد کی افواج سے مصروف جنگ جبہات مختلف صوبوں جیسے حلب، دیر الزور، حسکہ، رقہ اور حمس سے نکل کر داعشی باغیوں سے نمٹنے کے لیے ان سے جنگ کے علاقوں میں چلے گئے۔

کئی بار مشاہدہ کیا گیا کہ داعش کو دبانے کی خاطر جہادی تحریکات کے قافلے مختلف علاقوں کی جانب روانہ ہوتے اور امریکہ کی قیادت میں عالمی اتحاد کے ڈرونز ان کو نشانہ بناتے اور مجاہدین کو داعش کے علاقوں میں آسانی سے داخل ہو کر اس فرقے سے لڑنے کی اجازت نہ دیتے۔

جہادی تحریکات کی جگہوں پر اتحادی افواج کی بمباری اس بات کا باعث بنی کہ داعشی افواج کی پیش قدمی کے ساتھ ساتھ، نصیری افواج اور کردی افواج "وحدات حمایۃ الشعب” (YPG) نے بھی مجاہدین کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح عالمی اتحاد نے داعش کو دبانے میں مصروف مجاہدین کو کمزور کیا اور انہیں پسپائی پر مجبور کر دیا۔

داعش کے خاتمے کے لیے عسکری یونٹس بنانے اور انہیں محاذ پر بھیجنے میں مجاہدین کا مقصد یہ تھا کہ اپنی ذمہ داری اور دینی فریضہ ادا کر یں، ورنہ اگر اس زہریلے سانپ کو آسانی سے بڑھنے کی اجازت دی جاتی تو شام میں فتح و کامیابی مجاہدین کے لیے انتہائی مشکل امر تھا۔

مجاہدین کے شعبہ اطلاعات نے، جن کی سربراہی مشہور علماء، متخصصین اور ماہرین کر رہے تھے، اتحاد اور ہم آہنگی کے ساتھ اور عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعے داعش کے وجود کے برے نتائج سے قوم کو آگاہ کیا۔

لیکن ان تمام مشکلات اور تکالیف کے ساتھ مجاہدین دن بدن کمزور ہوتے چلے گئے اور ان کی پیش رفت میں کمی آ گئی اور داعش کے ساتھ جنگ کی وجہ سے بہت سے انہیں ایسے صوبے اور شہر چھوڑنے پڑ گئے جو انہوں نے انتہائی تکالیف کے ساتھ خون دے کر حاصل کیے تھے۔

Author

Exit mobile version