یرموک کیمپ میں داعش کا اثر اور اہل السنہ کے مجاہدین کے خلاف اس کے جرائم؛
اس سلسلے کے آغاز میں میں نے ذکر کیا تھا کہ داعش سنیوں اور مجاہدین کے لیے وبا کے سوا کچھ نہیں؛ جہاں بھی مجاہدین طاقت میں ہوتے، یہ شیطانی کیڑا وہاں نمودار ہوتا اور نوجوانوں اسلام پر وار کرتا۔
داعش کے زیر قبضہ جگہوں میں سے، گھروں سے بے دخل کیے گئے فلسطینیوں کا یرموک کیمپ بھی تھا۔
یرموک کیمپ شام کے دارالحکومت میں واقع ہے اور بشار الاسد کے محل سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جسے مجاہدین نے مختصروقت میں فتح کر لیا تھا؛ اس وجہ سے داعش نے اس جگہ پر قبضہ کرنے کا سوچا تاکہ بشار الاسد کی حکومت سانس لے سکے اور قریبی مجاہدین کے خطرے سے چھٹکارا حاصل کر سکے۔
2015ء کے آغاز میں یرموک کیمپ میں داعش کے داخلے کو شامی خانہ جنگی کے حساس اور پیچیدہ واقعات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، یرموک کیمپ جسے 1950ء کی دہائی میں فلسطینی پناہ گزینوں کی رہائش کے لیے بنایا گیا تھا، وقت کے ساتھ ساتھ یہ شام اور خانہ جنگی کے آغاز میں سب سے بڑی فلسطینی بستیوں میں سے ایک بننے کے ساتھ آپسی تنازعات کا اہم سبب بنا۔
داعش کی آمد سے قبل یرموک کیمپ کی حالت:
جب 2011ء میں شام کی خانہ جنگی شروع ہوئی تو یرموک دمشق شہر سے قریب ہونے اورزیادہ آبادی کی وجہ سے مختلف مسلح گروہوں کے لیے ایک اسٹریٹجک علاقہ بن گیا۔
پہلے تو بشار الاسد کے مخالف گروپوں بشمول "فری سیرین آرمی” اور بعد میں "جبهة النصرہ” نے کیمپ کے کچھ حصوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
اس عرصے کے دوران شامی حکومتی فورسز کی جانب سے کیمپ کا شدید محاصرہ کیا گیا جس سے یرموک میں رہنا انتہائی دشوار ہوگیا، وہاں کے رہائشی خوراکی مواد، علاج معالجے اور دواؤں کی قلت کا شکار ہوگئے۔
یرموک میں داعش کا داخلہ:
اپریل 2015ء میں داعش نے کیمپ میں فلسطینی جہادی گروپوں کے درمیان باہمی تنازعات سے فائدہ اٹھاکروہاں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی۔
بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ داعش نے یرموک میں "اکناف بیت المقدس” گروپ (حماس سے وابستہ ایک فلسطینی گروپ جو شامی حکومت کے مخالف ہے) کی ملی بھگت سے داخل ہوا؛ لیکن یہ دعویٰ درست نہیں تھا کیونکہ بعد میں یہ گروہ ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کرنے لگے تھے۔
یرموک میں داعش کا داخلہ، دیگر جہادی گروپوں کے ساتھ دھوکہ دہی اور خیانت کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا۔
یرموک میں داعش کے اہداف:
١: اسٹراٹیجک کنٹرول؛
یرموک کیمپ دمشق کے قریب ہونے کی وجہ سے خصوصی اہمیت کا حامل تھا، داعش اس علاقے پر قبضہ کرنا چاہتی تھی؛ تاکہ شام کے دارالحکومت کے ارد گرد اپنا اثر و رسوخ بڑھاکربشار الاسد کی حکومت کے لیے سیکورٹی اور حفاظت کاکام دے سکے۔
٢: نئے افراد کی بھرتی اور مجاہدین کے خلاف ان کا استعمال:
اس کی وجہ سے حکومتی فورسز کے لیے پہلے کی نسبت سیکیورٹی زیادہ ہوئی، داعش نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہی تھی تاکہ وہ جہادی گروپوں میں شامل نہ ہوں اورجہادی گروپوں کمزورہوجائیں۔
٣: دوسرے گروپوں کے ساتھ مقابلہ:
اس وقت یرموک میں شامی حکومت کے مخالف بشمول جبهة النصرہ کئی گروہ موجود تھے؛ یرموک میں داخل ہو کر داعش نہ صرف نئے علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش میں تھی بلکہ اس نے دیگر اسلامی اورمسلح جہادی گروپوں پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی بھی کوشش کی۔
اگرچہ داعش نے مجاہدین کے خلاف سینکڑوں جرائم و مظالم ڈھانے کے بعد کیمپ کا کنٹرول سنبھال لیا؛ لیکن انہوں نے کبھی بشار الاسد کی افواج پرایک گولی بھی نہیں چلائی؛ داعش کاغدر اور خیانت نے ہمیشہ مجاہدین کو نشانہ بنایا۔
٤: انسانی بحران سے فائدہ اٹھانا؛
داعشی عام طور پر علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بحرانی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہیں، جیسے محاصرے اور قحط؛ یرموک میں حکومتی فورسز کے طویل محاصرے اور ابترزندگی کی صورتحال نے داعش کے لیے اپنے آپ کو ایک طاقتور اور ممکنہ نجات دہندہ قوت کے طور پر ظاہر کرنے ایک موقع فراہم کیا۔
ردعمل اور نتائج:
یرموک میں داعش کے داخلے سے فلسطینی باشندوں کے ساتھ ساتھ عالمی برادری میں خوف اور تشویش پیداہوگئی، داعش نے تیزی سے کیمپ کے بڑے حصوں پر قبضہ کر لیا اور فلسطینی مسلح گروپوں اور جبهة النصرہ کے ساتھ شدید لڑائیاں لڑیں، حکومتی فورسز کے شدید محاصرے کے باوجود داعش یرموک کیمپ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
یرموک کیمپ میں داعش کی موجودگی کئی مہینوں تک جاری رہی اور اس نے کیمپ کے مکینوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا، مسلسل جنگ اور زندگی کی ناگفتہ بہ صورت حال کے باعث کیمپ کے بہت سے مکین انخلاء پر مجبور ہوئے، اور داعش آہستہ آہستہ اپنی فوج کوکھوبیٹھی۔
یرموک میں داعش کی موجودگی ان کی جنگی حکمت عملی کی ایک مثال تھی، جو جنگ زدہ علاقوں میں افراتفری اور عوامی عدم اطمینان کا فائدہ اٹھاتے ہیں، جس کا بنیادی مقصد ایک اسٹریٹجک مقام پر غلبہ حاصل کرنا اور بحرانی کیفیت سے اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرناتھا۔