داعش نامی وبا | نویں قسط

✍️ ابو ھاجر الکردی

داعش نے اپنے جھوٹے وعدوں اور پراپیگنڈوں سے بہت سے سادہ لوح مسلمانوں کو اس بہانے سے اپنی خونخوارصف میں شامل کیا کہ شام میں موجود جہادی تنظیمیں دائرہ اسلام سے خارج ہیں، ان کے خلاف طرح طرح کی افواہیں پھیلائیں، اس طرح انہوں نے مخلص مجاہدین کے متعلق شکوک وشبہات پھیلائے تاکہ اسلام و مسلمانوں کے خلاف اپنی وحشت وبربریت کو دوام دے سکیں۔

جنوری۲۰۱۴ء میں داعش نے اپنے مغربی و مشرقی آقاؤں سے معاہدہ کرکے رقہ شہر پر، جو شامی مجاہدین کے قبضے میں تھا، کنٹرول حاصل کرکے وحشت ودرندگی کی تاریخ رقم کرڈالی۔

الرقہ

صوبہ رقہ کا صدر مقام رقہ شہر شام کا ایک مرکزی شہر ہے جو شمال مشرقی شام میں دریائے فرات کے کنارے واقع ہے۔

مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی دو لاکھ بیس ہزار چار سو اٹھاسی (۲۲۰۴۸۸) افراد پرمشتمل ہونے کے سبب یہ شام کا چھٹا بڑا شہر ہے۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت سنی ہے۔

رقہ شہر پر قبضے کے بعد داعش نے اسے اپنے دارالخلافہ بنانے کا اعلان کیااور پھر ایک طوفانِ ظلم و وحشت کی داستان شروع ہوئی جب ان کے کارندوں نے چوکوں چوراہوں پر سرِ عام مجاہدین کے حامیوں کو قتل کیا اور ان کے گھروں پر چھاپے مارنے شروع کر دیے۔ شام کی عوام ان کے مظالم سے دل برداشتہ ہوگئی اور ان کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔

رقہ شہر پر قبضے کے بعد ان کی خیانت و اسلام دشمنی مزید واضح ہوگئی۔ مسلمانانِ شام کے قتل عام پر ایسی خوشیاں مناتے جیسے کفار کا کوئی ملک یاشہر فتح کرلیا ہو۔

رقہ شہر پر ان کا قبضہ ایسے وقت میں ہوا جب امریکی تعاون سے چلنے والی کرد ڈیموکریٹک پارٹی نے رقہ شہر پر قبضے کا منصوبہ بنایا اور بارہا کوشش کی کہ مجاہدین پر حملہ کریں لیکن وہ اس کی ہمت نا کرسکے، لیکن جب داعش نے رقہ شہر پر قبضہ کیا تو کرد ڈیموکریٹک پارٹی کو بھی مجاہدین پر حملوں کا حوصلہ ملا اور انہوں نے بھی مجاہدین کے خلاف محاذ کھول دیا۔

Author

Exit mobile version