داعش کا شیطانی رجحان اور نوجوانوں کو بھرتی کرنے کی حکمت عملی | دوسری اور آخری قسط

✍️ جنید زاہد

4 ۔ مختلف مکاتبِ فکر کے مابین اختلاف و تعصب پیدا کرنا

مختلف مکاتب فکر کے مابین اختلاف، تعصب کی فضا پیدا کرکے داعشی اس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو ورغلاکر اپنے ساتھ شامل کرلیتے ہیں اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کو جنگی معاملات میں دھکیل دیتے ہیں۔

حقیقت میں داعشی فکر کی بنیاد ہی یہ کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرکے اپنی عملداری قائم کی جائے۔

یہ سوچ ان کے خمیر میں موجود ہے کہ مذہبی اختلافات کو ہوا دی جائے اور اسے قومی رنگ دے کر لوگوں کو اپنے جال میں پھنسایا جائے، اور اس کے بعد اپنے کارندوں کی صورت استعمال کیا جائے۔

اس نظریہ کی بنیاد یہ ہے کہ وہ اس طرح مسلمانوں خاص کر نوجوانوں کو جو دینی معاملات میں کافی رسوخ نہیں رکھتے، انہیں یہ باور کروایا جاتا ہے کہ دین و مذہب کے نام پر انہیں دھوکے میں رکھا گیا، اس کی تلافی کے لیے انہیں مسلح جنگ کرنی چاہیے کیونکہ جب تک کوئی اپنے عقیدے کے لیے خون نہیں دیتا اس کی فکر ثمر آور نہیں ہو سکتی۔

۵۔ میڈیا میں خوشنما کلمات اور نعروں کا استعمال

پردے کے پیچھے بیٹھے ہوئے نظریاتی افراد ایسے نعروں اور جملوں کو استعمال کرتے ہیں جو جذباتی نوجوانوں پر اثر اندازہوں۔

یہ نظریاتی افراد اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ میڈیا پر خوشنما الفاظ اور دینی متون کی من گھڑت تشریحات کے استعمال سے نوجوانوں کو اپنے دام فریب میں پھنسایا جائے، اس طریقے سے ہمارے ناسمجھ مسلمان ان کے دھوکے میں آجاتے ہیں۔

حقیقت میں داعش کے اپنا رنگروٹ بھرتی کرنے کے مختلف طریقے ہیں جن کے ذریعے وہ مسلمانوں کے مابین فتنہ و فساد پیدا کر سکیں، ان کے سامنے صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح بنا کر پیش کر سکیں، یہ طریقے ہر علاقے کے حساب سے مختلف ہوتے ہیں۔

لہذا مسلمان مفکرین کو چاہیے کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں، داعشی گروہ کو زیر تحقیق لا کر ان کی، ان کے اعمال کی اور ان کی تنظیم کی حقیقت باضابطہ طورپر مسلمانوں کے سامنے لائی جائے تاکہ ان کے شر و فساد کے تمام راستے مسدود کیے جاسکیں۔

Author

Exit mobile version