داعش کا مقصد کیا تھا اور ہوا کیا۔۔۔؟

✍️ احمد ثالث

جب سے افغانستان میں دینِ اسلام داخل ہوا اس وقت سے کفار اور ان کے اتحادی آگ بگولہ ہیں جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے ابو جہل اپنے غیض وغضب میں جل بھن گیا تھا۔ اسی وجہ سے پہلے دن سے ہی دشمنانِ اسلام ایسے منصوبے بنانے میں مشغول ہیں کہ افغانستان کو کسی بھی صورت میں ترقی کرنے نہیں دیتے، وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح وہ اسے اپنے استعماری جال میں پھنسالیں۔

لیکن افغانستان کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آج تک یہ سرزمین کسی بیرونی قوت کے قبضے میں نہیں آئی، برطانیہ سے لے کر سوویت یونین اور اب امریکہ تک سب کے مد مقابل پھول نچھاور کرنے کے بجائے ان کو تگنی کا ناچ نچایا اور ایسا درس عبرت بنایا کہ رہتی دنیا تک تمام کافروں کے لیے شرم وعار کا باعث ہوگا۔

کفار جب کبھی عسکری شکست سے دوچار ہوتے ہیں تو وہ یہ چال چلتے ہیں کہ وہاں کسی ایسے گروہ کو تیار کرتے ہیں جو ان کے باقی ماندہ مقاصد کو پورا کرنے میں کوشاں رہیں، لہذا جب امریکہ یہاں شکست سے دوچار ہوا تو انہوں نے داعش نامی گروہ کو اپنے مقاصد سونپے جو اپنی وحشت ودہشت گردی میں کافروں سے بھی بڑھ کر تھے۔

داعش اگرچہ امریکی شکست سے پہلے بھی انہیں کے حکم پر اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے تھی مگر ایک حد تک کمزور تھی، پھر جب امریکہ کو شکست ہوئی تو داعش اپنی عسکری، دعوتی اور میڈیا کی پوری قوت سے افغانستان کی سرزمین پر ظاہر ہوئی۔

داعش نے بحیثیت مجموعی ابتدائی سالوں میں وحشت وبربریت کی ایسی داستانیں رقم کیں جس کے نتیجے میں وہ امریکہ اور دیگر کفار کی نظروں میں لائق خراج وتحسین ٹھہرے لیکن "ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے” کے مصداق عام مسلمان اور امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے پوری قوت سے ان کے خلاف محاذ کھولا اور جلد ہی ان کے خفیہ ٹھکانوں، ان کے منصوبوں اور ان کے ناپاک وجود سے افغانستان کی سرزمین پاک کردی۔

آپ دیکھیں! آج داعش کا صرف نام باقی رہ گیا ہے، ان کا کوئی وجود نہیں، اگر کہیں کچھ افراد ہیں بھی تو وہ اپنے ٹھکانوں سے نکلنے کی تاب بھی نہیں رکھتے، اللہ اس فتنے کو اور دیگر ان تمام گروہوں کو جو اسلام اور افغانستان کے خلاف برسرِ پیکار ہیں انہیں نیست ونابود فرمائے۔

Author

Exit mobile version