داعش کا نظریہ اور تنظیم | پہلی قسط

عمر عماره

بہت سے اداروں اور تحریکوں کا تعارف ان کے نظریات کا مطالعہ کرنے سے ہوتا ہے، اگر داعش کے آغاز میں ہی عراق کے سب سے بڑے صوبے الانبار پر ایک دم سے پوری طرح کنٹرول کو دیکھا جائے تو بالکل صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ گروہ ایک بڑے، منظم ادارے اور علاقائی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ملی بھگت سے میدان میں اتارا گیا ہے۔

داعش علاقائی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے مل کر میدان میں اتری اور اپنے ابتدائی ایام میں ہی بہت جلد کامیابیاں حاصل کیں۔

لیکن وقت گزرنے اور حقائق افشاء ہونے کے بعد ان کی تمام کوششیں اور کامیابیاں خاک میں مل گئیں اورعوام کی جانب سے عدم اعتماد کی بنا پران کی تحریکی زندگی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی۔

یہ تحریک حقیقیت میں دینی، مذہبی نظریہ نہ ہونے کی وجہ سے حیران کن طور پر اپنے انجام کو پہنچی۔ معاصر تاریخ میں سب سے بڑی اورخطرناک سازش یہی داعش ہے جو مخصوص علاقائی اور بین الاقوامی ایجنسیوں کی ایما پر میدان عمل میں اتری اور پہلے سے متعین کردہ اہداف کے لیے انہیں دیگر جہادی تنظیموں کے مابین کھڑا کیا گیا۔

اصل میں داعش کی وحشی کاروائیوں اور مبہم شناخت کے باعث لوگ شک میں پڑ کر ان سے بیزار ہوگئے اور ان کی صفوں سے نکل کھڑے ہوئے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنی ابتداء میں سطحی فکر کے حامل افراد ان کے نام نہاد نعروں کے دھوکے میں آ کرانہیں اسلامی اقدار کے احیاء کا محور گرداننے لگے لیکن بہت جلد ہی حقائق کھلنے کے بعد ان سے بدظن ہو کر اپنے عقائد و دین کے اصولوں کی طرف لوٹ آئے۔

عوام نے حقائق کا ادراک کرنے کے بعد یقین کرلیا کہ یہ تنظیم کسی طور پر بھی احیائے خلافت کے لیے نہیں بنائے گئی۔

اصل وجہ بھی یہی تھی کہ داعش کی تاسیس سے بین الاقوامی سیاسی کھلاڑیوں کا مقصد ان کے مفادات کا تحفظ اور طویل المدتی اہداف کے حصول کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

Author

Exit mobile version