داعش کیوں بنائی گئی؟

عمر الخراسانی

اکیسویں صدی عیسوی کی ابتدا میں داعش نامی خطرناک اور انتہا پسند گروہ وجود میں آیا، خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد دشمن اسلام سکون سے نہیں بیٹھے بلکہ وہ مسلسل امت مسلمہ کو دوبارہ عروج، اتحاد، کامیابی اور خودمختاری سے روکنے کے لیے کوشاں تھے اور آج بھی اس پر عمل پیرا ہیں، اسی مقصد کے لیے انہوں نے اسلام کے لبادے میں اسلام کو نقصان پہنچایا۔

خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد فورا سید علامہ جمال الدین افغانی کی سرکردگی میں معاصر اسلامی فکر کو بیدار کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں مگر یہ حضرات اس وقت صرف دفاعی پوزیشن میں تھے، وطن پرستی و دیگر زہر آلود افکار و نظریات اتنے پھیل چکے تھے کہ یہ لوگ باوجود حتی الوسع کوشش کے مسلمانوں کا ایک بین الاقوامی اتحاد نہ بنا سکے۔

امت کے دفاع و اتحاد کا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ القاعدہ کے نام سے تنظیم وجود میں آئی، جس نے بہت جلد عسکری کاروائیوں کے نتیجے میں اسلام اور اسلامی نظام دنیا کو متعارف کروایا، مغرب نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنے قدیم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اور القاعدہ کی ترقی و کامیابی کا راستہ روکنے کے لیے بظاہر اسی طرح کی ایک انتہا پسند اور اسلامی نظام و تعلیمات کو بدنام کرنے کے لیے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔

اس تنظیم کی تاسیس میں یہودیوں نے بھر پور مالی تعاون کیا، افرادی قوت بہم پہنچانے کے لیے یہ لوگ پہلے سے مستعد تھے اور عوام میں مختلف ناموں سے افکار و نظریات پھیلارہے تھے، یہ افرادی قوت داعش کے وجود میں آنے پر فورا اس کی صف میں شامل ہوگئی۔

تاسیس کے بعد انہیں اپنے کام کو وسعت دینے کے لیے یہود کی جانب سے اسلحہ اور دیگر جنگی وسائل فراہم کیے گئے، افرادی قوت ایسے گروہوں کے ذریعے تیار کی گئی جن کے افکار داعش جیسے تھے، انہوں نے نوجوانوں کو اسلامی بیداری کے نام پر اس انتہا پر پہنچا دیا جہاں داعش کے لیے کام کرنا ان کی طبیعت میں شامل ہوگیا۔

داعش کے خاتمے کے لیے اسلامی جماعتیں وسائل نہ ہونے کے باوجود برسر پیکار ہیں، اگر وہ انتہا پسند تنظیمیں نہ ہوتیں جو داعش کو افرادی قوت مہیا کررہی ہیں تو آج داعش کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔

اسلام کے لبادے میں چھپے اسلام و مسلم دشمن تنظیموں کے خاتمے کی امید پر!

Author

Exit mobile version