خلافت بذاتِ خود ایک بہت عظیم مشن ہے اور خلیفہ بننا بھی کوئی آسان ذمہ داری نہیں، جیسا کہ داعشی خوارج نے دعویٰ کیا تھا۔ داعش کی دہشت گرد تنظیم نے بالآخر کلمہ سے مزین سیاہ پرچم کو ایسے اعمال میں استعمال کیا جنہوں نے خلافت اور خلیفہ دونوں کے تقدس کو نقصان پہنچایا۔
داعشی خلافت کے آغاز کے وقت، لبنانی اخبار ’’الاخبار‘‘ نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ ابوبکر البغدادی نے داعش کے سربراہ کی حیثیت سے مسلسل ۱۴ مہینے بھرپور کوششیں کیں تاکہ اس کے خفیہ حامی اسے خلافت کا اختیار دے سکیں اور وہ خود کو ایک طاقتور شخصیت کے طور پر پیش کرے، اور یوں ظاہر کرے کہ وہ زمین پر صرف مسلمانوں کا امیرالمؤمنین نہیں بلکہ خلیفہ بھی ہے۔ اسی مقصد کے لیے اس نے اپنے ترجمان ابو محمد العدنانی کے ذریعے خلافت کے قیام کے ساتھ خود کو ’’واجب الاطاعت‘‘ خلیفہ قرار دیا۔
ظاہراً یہ وہی دعویٰ تھا جس کے ذریعے تقریباً ایک صدی بعد کمال اتاترک کے ہاتھوں ختم ہونے والی اسلامی خلافت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے حامیوں نے ’’سائیکس – پیکو‘‘ کے معاہدے کے تحت قائم کردہ سرحدوں کو اپنے بیانات میں مسترد کر دیا اور ایک نئے ریاستی نظم کو خلافت کا نام دیا، جس کی جغرافیائی حدود میں تمام مسلمان شامل ہونے تھے۔
داعشی دعوے کے مطابق، خلیفہ کی بیعت تمام مسلمانوں پر واجب تھی اور جو اس سے انکار کرتا، وہ مجرم اور سزا کا مستحق قرار پاتا۔ العدنانی نے اس وقت کی اپنی تقریر میں کہا تھا کہ میں تمہیں اس مقصد کے لیے متحد ہونے کی دعوت دیتا ہوں، لیکن جو کوئی اس سے انکار کرے، اس کا سر قلم کر دیا جائے۔
بعد میں داعش سے وابستہ سلفی علماء نے بھی اس سیاسی کھیل کی حمایت میں فتوے اور بیانات دیے اور کہا کہ ان کے خلیفہ کا مقصد ایسا خلافتی نظام قائم کرنا ہے جو اسلامی ممالک کی سرحدوں اور معیشتی نظاموں کو متحد کرے اور ایک واحد ریاست بنائے۔ ان کے مطابق، مستقبل کے منصوبوں میں مسلمانوں کو علمی مراکز، یونیورسٹیوں اور فیکٹریوں کے قیام کے ذریعے دنیا کی ایک طاقتور قوم میں تبدیل کیا جانا تھا۔ ان کے شیوخ کے بیانات کے مطابق، خلیفہ روئے زمین پر مکمل اختیار رکھتا ہوگا، نہ کہ محض ایک عارضی حکمران جو کسی حکومت کے وقتی انتظامات سنبھالتا ہے۔
لیکن چونکہ داعش بذاتِ خود ایک دھوکہ باز اور لٹیری تنظیم تھی، اس لیے اس کی خلافت اور خلیفہ بھی جعلی تھے۔ ان کی جانب سے قیدیوں کی رہائی، گورنروں اور قاضیوں کی تقرری، اور دینی علوم کی ترویج کے دعوے سراسر جھوٹے تھے۔ ایک چیز جو واقعی عملی طور پر دیکھی گئی، وہ عوام سے ٹیکس کے نام پر زبردستی پیسے اکٹھا کرنا تھا۔ انہوں نے عراق اور شام کے بڑے علماء کی رائے اور مشورے کو بھی برداشت نہ کیا؛ تنقید اور مخالفت موت کے مترادف سمجھی جاتی تھی۔ ان کا خلیفہ تو حتیٰ کہ اپنے افراد کے سامنے بیعت کے لیے بھی پیش نہیں ہو سکا کیونکہ ان کے اندر اعتماد کی فضا سازگار نہیں تھی۔
دوسری طرف، لبنان میں موجود داعش سے الگ ہوجانے والے عبداللہ نامی عالم نے انہی دنوں اپنے بیانات میں کہا کہ موجودہ حالات میں خلافت کا اعلان کرنا کسی طور بھی قرین مصلحت نہیں ہے، بلکہ اس سے اسلام اور عالم اسلام کو سنگین نقصان پہنچے گا۔ اس لیے جتنی جلدی یہ باطل اعلان اور تنظیم ختم ہو، اتنا ہی بہتر ہوگا۔ ایک اور سلفی شیخ نے داعش کے عمل کو ’’حماقت پر مبنی اعلان‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ نظام تو کسی معمولی ریاست کی شکل میں بھی باقی نہیں رہ سکتا، کیونکہ نہ ان کے پاس اقتصادی ماہرین ہیں اور نہ ہی تعلیمی ماہرین۔ صرف خودکش حملے ہی ان کا ہتھیار ہیں جو مسلمانوں کو تباہ کر دیں گے۔ ایک اور عالم نے کہا تھا کہ یہ خلافت نہیں، بلکہ عراق اور شام کے تیل سے مالا مال علاقوں پر قبضے اور لوٹ مار کی ایک سازش ہے۔