یاد رہے کہ ۱۹۲۴ء میں اتاترک کی جانب سے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد خلافت اور اسلامی حکومت کے دوبارہ قیام کی کئی بار کوششیں ہوئیں۔ خاص طور پر اہل سنت کے درمیان یہ ایک ضرورت سمجھی جاتی تھی، مگر یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ ان اقدامات میں کئی خارجی تحریکوں اور افراد نے بھی کوششیں کیں، جو شاید اس کی نسبتاً نئی شکل تھی، کیونکہ ایک دہشتگرد اور تکفیری گروہ نے بھی اسی راستے کو اپنایا، اور اپنی گمراہ کن حرکتوں کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں خلافت کے بارے میں ایک ہولناک تصور بٹھا دیا۔
خلافت، اسلامی معاشرے پر حکومت کرنے کے لیے اہل سنت فقہ کا ایک سیاسی ڈھانچہ اور تصور ہے، جس کا مطلب جانشینی ہے، اور خلیفہ دین کی حفاظت کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کرتا ہے۔ یہ دراصل ایک روحانی اور مادی حیثیت رکھنے والا نظام ہے جو معاشرے میں بہترین نظام کی نمائندگی کرتا ہے۔ خلیفہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ عدل، اجتہاد، عقل، جسمانی صحت، سیاست و تدبیر، بہادری اور قریشی نسب رکھتا ہو۔ خلیفہ کے انتخاب کے لیے ضروری ہے کہ عوام یا اہل حل و عقد کے ذریعے اس سے بیعت کی جائے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، داعش کی طرف سے خلافت کے اعلان کا دعویٰ ایک فتنہ تھا، جس کے پیچھے یورپی ممالک، امریکی انٹیلیجنس ایجنسیاں اور عیسائی نظریات رکھنے والے لیڈروں کا ہاتھ تھا۔ اس حوالے سے امریکہ کی اس وقت کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے بیانات آج بھی میڈیا پر موجود ہیں، جن میں انہوں نے داعش کے قیام میں امریکہ کے کردار کا انکشاف کیا ہے۔
اس کے علاوہ مغربی میڈیا نے اسلام کی ماہیت، اسلامی ریاست اور داعش کے تعارف اور تشہیر کے بارے میں وسیع پیمانے پر نشریات شروع کیں، اور اسے ایک خالص اسلامی تحریک کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے اسے خلافت اسلامی کی ایک کڑی قرار دیا، حتیٰ کہ بعض حکومتوں نے بھی ایسی فضا فراہم کی کہ اس کے ارکان یورپ کی سخت سرحدوں کو باآسانی عبور کر سکیں۔
کچھ دیگر میڈیا اداروں نے اس مسئلے کے دوسرے پہلو کو اجاگر کیا اور اسلام کو ایک انتہا پسند مذہب کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے اپنے حامیوں کو اسلام کے خلاف جدوجہد اور مزاحمت پر ابھارا، تاکہ وہ اپنے اُس خواب کو پورا کریں جس کے مطابق اسلام ایک شدت پسند دین ہے۔ یہ سب اسلام سے خوف پیدا کرنے کے منصوبے کو مضبوط کرتا ہے، اور اسلام مخالف نظریات کو یورپی اور امریکی ذہنوں میں ایک مخصوص رخ دیتا ہے۔ یہ ایک ایسی منصوبہ بندی ہے جو امریکہ کے خاکے اور یورپ کی مالی معاونت سے شروع ہوئی اور اب بھی جاری ہے۔
آخرکار یہ کہا جا سکتا ہے کہ داعشی خوارج نے اپنی تشکیل کے آغاز ہی سے مختلف ملکوں میں عوام، خصوصاً نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لیے گوناگوں طریقے اور ذرائع استعمال کیے، تاکہ انہیں اپنے ناپاک مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ داعشی خوارج نے خلافت اور خلیفہ کے نام سے کیوں فائدہ اٹھایا؟ اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ مسلم نوجوان اپنی مغرب نواز حکومتوں اور آمرانہ نظاموں سے شدید اذیت میں مبتلا ہیں، اور نام نہاد مسلم حکمرانوں نے ان کے ساتھ، ان کی تاریخ، ان کی زندگی اور ان کے مستقبل کے ساتھ بار بار سودے اور کھیل کھیلے ہیں۔ یہ نوجوان ایک ایسے اشارے اور موقع کے منتظر ہوتے ہیں کہ وہ اپنے دین اور اقدار کے دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، اور داعش نے انہی پاکیزہ جذبات کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھایا ہے۔
یہ وحشی گروہ وقت گزرنے کے ساتھ اس قدر رسوا ہو چکا ہے کہ اب اس کے سرپرست بھی اس پر اعتماد نہیں کرتے۔ یہ گروہ اب افرادی قوت اور مالی وسائل کی شدید کمی کا شکار ہے، اور ایسے حالات میں اس کے لیے خلافت کے نام پر مزید سیاسی یا خارجی تجارت کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
جب یہ گروہ عراق اور شام میں شدید شکست سے دوچار ہوا، تو اس کی ایک ذیلی شاخ خراسان میں بنائی گئی، اور یہ سمجھا جا رہا تھا کہ یہاں فتنوں کا جال بچھایا جائے گا۔ لیکن امارتِ اسلامی کے قیام کے ساتھ ان کا یہ خواب بھی خواب ہی رہا۔
آج نہ صرف ان کے خلاف ایک مضبوط عسکری قوت موجود ہے، بلکہ عوام میں بھی حقیقی اسلام کی سمجھ بوجھ اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ ایسے دھوکہ دہی پر مبنی دعوؤں اور پروپیگنڈوں سے فریب نہیں کھاتے۔