داعش نے خطے میں بالخصوص افغانستان میں اپنی جگہ بنانے، لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے اور اپنے سیاہ لشکر کو بڑھانے کے لیے ذیل میں ذکر کیے گئے حربوں کا سہارا لیا۔
جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اسے درحقیقت فریب اور فتنے کی دنیا کہا جاتا ہے، ایک ایسی دنیا جہاں معاشرے میں ہر طرح کا فریب جاری ہے اور دنیا ان حربوں کی وجہ سے ان فریبوں کا شکار ہونے کے بعد تھک چکی ہے اور پریشان ہے۔
افغانستان اور اس سرزمین کے لوگ بھی دنیا سے مستثنیٰ نہیں، اور وہ بھی کبھی کبھی بعض تحریکات کے شیطانی حربوں کے دامِ فریب میں گرفتار ہو جاتے اور کچھ مدت کے لیے اسی میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔
افغانستان میں داعش کے حربے:
۱: تطمیع (لوگوں کو لالچ دینا)
داعش نے اس سرزمین پر جو حربے استعمال کیے اگر ان پر نظر ڈالی جائے تو ان میں سے ایک طمیع ہے یعنی لوگوں کو لالچ دینا۔
درحقیقت لوگوں کو اپنے شیطانی مقاصد کی جانب راغب کرنے کے لیے ضروری تھا کہ وہ خاص حربوں سے فائدہ اٹھائیں تاکہ وہ انہیں اپنے بے معنی اور بے روح عقائد کی طرف لے جا سکیں۔ طمع کا حربہ ہمیشہ سے شیطانی تحریکات میں موجود رہا ہے اور آج تک چلا آ رہا ہے۔
عالمی استکبار نے جب بھی استعمار کی شکل میں تیسری دنیا میں قدم رکھا تو اس نے طمع کے حربے سے بہت فائدہ اٹھایا۔
چونکہ دنیا کی نظر میں افغانستان کی عوام کی معاشی حالت بہت خراب ہے، اس لیے انہیں دولت و مال کی فراہمی کے ذریعے مجبور کیا گیا جبکہ دوسری طرف عارضی عہدوں اور طاقت کے وعدوں کے ذریعے انہیں اپنے جال میں پھنسایا گیا۔
لیکن اس سرزمین کے عوام اگرچہ بدترین معاشی حالات میں تھے، لیکن اس سرزمین کے دشمن کبھی بھی طمع کے حربے سے فائدہ اٹھا کر یہاں کی اکثریت کو دھوکہ نہیں دے سکی سوائے ان کٹھ پتلیوں کے جو دشمنوں کے منصوبوں کے تحت مسندِ اقتدار و سیاست پر بیٹھے اور جنہوں نے کھلے عام ان منصوبوں کو قبول کیا۔
لیکن یہ چھوٹا سا گروہ کبھی بھی افغانستان کے عوام اور اس سرزمین کی اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتا اور نہ ہی کبھی کی ہے۔
افغانستان کے بعض علاقوں میں جہاں داعش کے سیاہ فطرت گروہ نے اپنے ناپاک قدم رکھے، وہاں انہوں نے بلنگ و بانگ دعووں کے ذریعے سے لوگوں کو اپنے لالچ کے حربے میں پھنسایا، لیکن علماء و مشائخ کی موجودگی کی وجہ سے، کچھ ہی عرصہ گزرنے کے بعد فتنوں میں پڑنے والے لوگوں نے بیدار مغزی سے خود کو ان کے پنچوں سے نکال لیا اور ان کو ذلیل کر کے رکھ دیا اور مشائخ اور علمائے حق کے ساتھ مل کر انہیں شکست سے دوچار کیا۔
۲: استحماق (لوگوں کو بے وقوف سمجھنا)
چونکہ داعش اپنے قیام سے ہی غلام تھی، اور اسی حیثیت میں اس کی جڑیں پھیلتی رہیں، اس لیے وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ استحماق یعنی لوگوں کو بے وقوف سمجھتے ہوئے، وہ اس سرزمین کے لوگوں کے عقائد پر اثر انداز ہو سکیں گے، اور اپنا دائرہ وسیع کر پائیں گے اور اس سرزمین کو اپنے فکری اور جغرافیائی قبضے میں لے آئیں گے۔
دنیا میں بہت سے ممالک استحماق کے حربے کا شکار ہوئے اور انہوں نے اپنا آپ اور اپنی تاریخ غیروں کے حوالے کر دی، لیکن داعش کا یہ حربہ کبھی بھی افغانستان میں پزیرائی نہیں پا سکا اور کوئی بھی اس کا شکار نہ ہوا۔
بعض اوقات ایسی تحریکات جو کسی متحرک نظریے کی حامل نہیں ہوا کرتیں، اور جو خود ان حربوں کی وجہ سے بد عنوان اور فساد کے علم برداروں کے جال میں پھنسی ہوتی ہیں، دوسروں کو بھی اس دھوکے اور فتنے کے جال میں پھنسانا چاہتی ہیں۔
لیکن وہ اس بات سے غافل ہوتی ہیں کہ یہ سرزمین اہلِ علم، مخلصین اور علماء کی موجودگی کے ساتھ، کبھی بھی اپنے لوگوں کو دشمن کے جال میں تنہا نہیں چھوڑتی، اور یہی اس عظیم معاشرے کے افراد کی کامیابی اور ہمیشہ کامیاب رہنے کا راز ہے۔
یہ مباحث جو اوپر مختصراً بیان کیے گئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ سرزمین فتح نہیں کی جا سکتی، اور یہاں کے عوام کسی صورت بھی غلامی قبول نہیں کرتے۔
جب تک اس سرزمین کے لوگ اپنے دین اور عقائد کے ساتھ مضبوط اور مستحکم تعلق رکھتے ہیں، وہ کبھی شکست سے دوچار نہیں ہوں گے، اور ان کے دشمن اور بدخواہ ہمیشہ شرمندہ ہوں گے۔