داعش کی خراسان شاخ! پہلی قسط

اسلم خراسانی

جس گروہ نے اپنے آپ کو داعش کا نام دیا، اُس نے اپنی جائے پیدائش والے علاقے میں دہشت اور خوف پھیلانے کی کارروائیاں شروع کیں اور کچھ عرصے تک وہاں اپنی منحوس اور خبیث موجودگی جاری رکھی؛ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ، یہ گروہ سخت مقامی اور بین الاقوامی مسائل اور چیلنجز کا شکار ہوا، جس نے ان کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا، ان کا نظم و نسق درہم برہم ہوا۔

داعش، جو ہمیشہ سے تخریب کاری اور مذموم مقاصد، خفیہ عزائم کی حامل رہی ہے، اس نے کوشش کی کہ اپنے ناپاک منصوبوں کو دیگر علاقوں تک پھیلائے، تاکہ فساد اور خوف کا دائرہ وسیع ہو۔

اسی مقصد کے لیے انہوں نے منصوبے تیار کیے، تیاری کی، اور دیگر اسلامی ممالک کا رُخ کیا، وہاں اپنے گندے نظریات کے بیج بوئے؛ وہ نظریات جن سے تباہی، فساد اور بربادی کے سوا کچھ نہیں پھیلتا اور جن کا اسلامی آئیڈیالوجی سے کوئی تعلق نہیں۔

داعش نے اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کا پیغام پھیلانے کے بجائے یہ کوشش کی کہ لوگوں کو دین اور آسمانی ہدایات، جو انسانیت کی نجات کے لیے بھیجی گئی ہیں، سے نفرت ہو جائے۔ انہوں نے ارتداد اور دین سے بیزاری جیسے زہریلے خیالات کو فروغ دیا، تاکہ لوگوں کے دلوں میں دین کے خلاف دشمنی پیدا ہو۔

یہ حیرت کی بات نہیں کہ ایسا نظریہ اسلام کی اصل روح سے اتنا شدید متصادم ہے کہ کوئی بھی شخص اگر تھوڑی سی تحقیق کرے تو یہ حقیقت اُس پر واضح ہو جائے گی۔

"دولتِ اسلامی ولایت خراسان، داعش کی وہ شاخ ہے جو اُس کے مرکز (عراق و شام) سے وابستہ ہے، یہ شاخ اس لیے قائم کی گئی ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر فساد اور وحشت کے بیج بوئے جائیں اور لوگوں کو اسلامی جہاد کے نام اور اس کے حقیقی مفہوم سے بدظن کریں۔

داعش، جو خوف و ہراس پھیلانے کے ذریعے شہرت حاصل کر چکی ہے، افغانستان اور دیگر اسلامی ممالک میں اپنے اثر و رسوخ کے مراکز قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بعض علاقوں میں، اسے عوامی سطح پر کچھ حد تک تعاون بھی ملا ہے اور وہاں اس نے اپنے خفیہ اور مکروہ طاقت کے ڈھانچے منظم کیے ہیں، لیکن ان تمام منصوبوں اور کوششوں کے باوجود، عالمِ اسلام کے اکثر ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اس فتنے کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑی، اور نہ ہی کبھی چھوڑیں گے۔

داعش کو شاخیں کیوں درکار ہیں؟

ہر وہ گروہ یا نظریہ جو اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے، وہ مجبور ہوتا ہے کہ اپنے لیے مختلف شاخیں، نام اور صورتیں اختیار کرے، تاکہ مختلف علاقوں میں اپنے لیے جگہ بنا سکے۔ داعش بھی، جو کئی سالوں سے اسلامی اقدار کے خلاف ایک زہریلا نظریہ پھیلا رہی ہے، مجبور ہوئی کہ اپنے خیالات کو علاقائی حالات کے مطابق مختلف ناموں، شکلوں اور لبادوں میں پیش کرے۔ اسی لیے اس نے ’’داعش خراسان‘‘ کے نام سے یہ مکروہ نظریہ افغانستان میں متعارف کرایا؛ اُس سرزمین میں جو ہمیشہ مجاہدین کی تحریکوں کا مرکز رہا ہے اور اسلامی امت کے لیے امید کی ایک کرن شمار ہوتی ہے۔

خوف اور دہشت پھیلانا ایک پرانا سیاسی و عسکری حربہ ہے، جسے دنیا اور خطے کی بہت سی طاقتوں نے آزمایا ہے۔ موجودہ سیاسی میدان، جس پر عسکری رنگ غالب ہے، میں اثر و رسوخ کا پھیلاؤ ایک اہم ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔

داعش کوشش میں ہے کہ مختلف علاقوں سے فائدہ اٹھا کر نفاق اور دہشت کے بیج بوئے۔ یہ ان عوامل میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے بظاہر کچھ کامیابی حاصل ہوئی ہے، لیکن تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ ایسے نظریات، اگرچہ وقتی طور پر کچھ ترقی کر بھی جائیں، آخرکار شکست سے دوچار ہوتے ہیں۔

داعش نے افغانستان کو اس لیے چُنا، کیونکہ یہ سرزمین تاریخ کے عظیم ہیروز، مجاہدین اور انقلابیوں کی جائے پیدائش رہی ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ اگر یہ ناقابلِ تسخیر ملک اُن کے کنٹرول میں آ جائے، تو وہ اپنے انتہا پسند نظریات کو باآسانی نافذ کر سکیں گے۔

افغانستان، حقیقتاً بھی اور عالمی سطح پر بھی، ایک اسٹریٹجک اور جیوپولیٹیکل حیثیت کا حامل ملک ہے؛ ایسی سرزمین جو ہمیشہ بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ داعش اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ یہ سرزمین اپنے منفرد جغرافیائی مقام اور اصولوں سے وابستہ عوام کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اسی لیے وہ اسے زیرِ اثر لانے کی کوشش کر رہی ہے، کیونکہ اگر وہ اس میں کامیاب ہو جائے، تو یہ اُس کے لیے ایک بہت بڑی اور تاریخی کامیابی سمجھی جائے گی۔

Author

Exit mobile version