امت مسلمہ ہمیشہ جنگ میں کفار کے خلاف فتح یاب ٹھہری ہے، لیکن فتح کے بعد خوارج ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کی پاکیزہ صف سے بغاوت کر دی۔ اگر ہم علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کی فتوحات پر غور کریں، اس وقت کے مسلمان غالب تھے لیکن خوارج نے ان سے بغاوت کر دی اور ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
اسی طرح شام، عراق اور دیگر ممالک کی جہادی تحریکوں پر غور کریں، اس وقت داعش (خوارج) نے بغاوت نہیں کی جب وہ کمزور تھیں، لیکن جب مومنین غالب ہوئے، تو انہوں نے مخالفت شروع کر دی، جہاد و جدوجہد کو دہشت گردی اور جنگ کا نام دیا اور مسلمانوں کے خون کو بے جا پانی کی طرح بہایا، عورتوں کو باندیاں سمجھا اور نوجوانوں کا قتل شروع کر دیا۔
آج وہی پرانی تاریخ افغانستان میں بھی داعش نے زندہ کر دی، جب امارت اسلامیہ حالتِ جنگ میں تھی تو انہوں نے اتنی سخت اور کھلی مخالفت نہیں کی، لیکن جب یہ اسلامی نظام نافذ کرنے کے مرحلے کے قریب پہنچی تو انہوں نے اس کے خلاف فتنہ کھڑا کر دیا اور مسلح مخالفت شروع کر دی۔ اسی طرح جب نظام مجاہدین کے ہاتھ آ گیا اور امارت اسلامیہ ملک پر حاکم ہو گئ تو داعش نے علما پر کفر کے فتوے لگائے، افغانیوں کا خون مباح قرار دیا، افغانیوں کو اجرتی قاتل کہا، اور اپنے لیے ایک روایت پیدا کرنے کے بعد ہر طرح کے ظلم و استبداد سے کام لیا۔
لیکن کیا وجہ ہے کہ یہ اسلامی امت کی کامیابی کے بعد اٹھتے ہیں؟
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پہلے کفار اسلامی ممالک پر چڑھائی کرتے ہیں، اور ایسے گروہوں کا خفیہ طور پر ساتھ دیتے ہیں، اگر وہ کامیاب ہو جائیں تو یہ بھی اسی طرح خفیہ ہی رہتے ہیں اور اگر ناکام ہو جائیں تو پھر کفار کے جانے کے بعد کھل کر سامنے آ جاتے ہیں، مومنین پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں اور مومنین کی صفوں میں موجود علماء کو شہید کرتے ہیں، مسجدوں کو ختم کرتے ہیں، مدارس کو تباہ کرتے ہیں اور مسلمانوں سے ان تمام کفار کا بدلہ لیتے ہیں جو میدان جنگ میں مارے گئے۔
ہم نہیں جانتے کہ داعش نے کتنے لوگوں کے کفر کا فتویٰ دیا ہے لیکن آپ خود بھی ایسی باتیں جانتے ہیں کہ داعش نے خود اپنے ہی افراد کے خلاف بھی بہت بار کفر کا فتویٰ جاری کیا ہے تو پھر ہمیں ایسے میں کہاں چھوڑیں گے۔
لیکن ان کے زوال کا وقت نزدیک آ پہنچا ہے اور ان شاء اللہ قلیل عرصے میں یہ ذلیل گروہ ذلیل و رسوا ہو کر افغانستان اور بالآخر پوری امت مسلمہ سے نابود ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ