داعش کے خلاف عالم اسلام کی ذمہ داری | دوسری قسط

طاہر احرار

کفریہ ممالک نے آج تک جنگ اور قربانی کے ذریعے مسلمانوں پر غلبہ نہیں پایا، اگر تاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ کفار نے ہر وقت مسلمانوں کے مابین تفریق و اختلاف پیدا کر کے مسلمانوں کو شکست دی اور ان کے رعب اور دبدبے کا خاتمہ کیا۔

کفار کی یہ پالیسی بظاہر بہت حد تک مسلمانوں کی اپنی لاپرواہی کی وجہ سے ہی کامیاب ہو پائی۔

لیکن پھر بھی ہر دور میں حق پرست حق بات کہنے سے کبھی پیچھے نہ ہٹے اور حق بات کہنے کے ذریعے سے ہی اپنی عوام اور اپنے ممالک کو کفری تسلط اور غلامی سے بچایا۔

ایک وقت تھا جب معتزلہ خوارج کا فتنہ اپنے زوروں پر تھا۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ کہ اللہ جل شانہ نے عرش کیسے استوا کیا؟ سوال پوچھنے والے کا واحد مقصد ایک بڑے فتنے کو ہوا دینا تھا۔

حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے جوابا فرمایا:

الاستواﺀ معلوم وکيفيته مجهول الاعتقاد به واجب والسوال عنه بدعة.
استواء معلوم ہے اور اس کی کیفیت مجہول ہے۔ اس پر اعتقاد رکھنا واجب ہے اور اس پر سوال کرنا بدعت۔

اس سے سوال پوچھنے والا لاجواب ہو گیا، اور اسے آگ بھڑکانے اور فساد برپا کرنے کا موقع میسر نہ آ سکا۔

فتنے کے دور میں فتنہ کو ختم کرنے یا اس کو دور کرنے کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ علمائے کرام، خطباء اور مقررین جرأت کا مظاہرہ کریں، حق کو حق کہیں اور باطل کا رد کریں اور وقت کے علمائے کرام اور ذمہ داران دشمن کو اختلافات پیدا کرنے کا بالکل موقع فراہم نہ ہونے دیں۔

یہ اختلافات کبھی دینی و مسلکی ہوا کرتے ہیں اور کبھی قومی اور علاقائی۔ اس بار مغرب نے مسلمانوں میں مسلکی تفریق اور تقسیم کی خاطر داعش نامی فتنہ کھڑا کیا جس نے پور ی دنیا میں مسلمانوں کی قوت کو کمزور کیا، وحدت کو تباہ کیا اور حنفی، سلفی، اہل حدیث کے ناموں سے مسلکی منافرت کو پھیلایا۔ جو کام داعش نے اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے کیے ہیں ان شاء اللہ وہ قارئین کو معلوم ہی ہوں گے۔

عالم اسلام کے حکمرانوں، ذمہ داران، منصوبہ سازوں، فوجی اور غیر فوجی کارکنوں، مبلغین، اساتذہ، علماء، خطباء اور مدرسین کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ امت میں تفرقہ کا راستہ روکیں اور دشمن کو ہمیں مسلکی، دینی، قومی اور علاقائی اختلافات میں پھنسا کر شکست دینے اور ہماری شوکت کو ختم کرنے کی ہرگز اجازت نہ دیں اور وہ فروعی اختلافات جو بحث کے لائق نہیں، انہیں لوگوں کے مباحث سے نکال دیں۔

حکومتوں کو اس فارمولے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام امکانات کو بروئے کار لانا چاہیے تاکہ تمام اسلامی ممالک خصوصا امارت اسلامیہ افغانستان اس اور اس جیسے دیگر فتنوں سے محفوظ ہو جائے۔

وما ذالک علی اللہ بعزیز

Author

Exit mobile version