داعش کے خلاف عالم اسلام کی ذمہ داری | چوتھی قسط

طاہر احرار

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ اپنی کٹاب صحیح البخاری میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث نقل کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

میں حوض کوثر پر کھڑا ہوں گا اور اپنے امتیوں کو پانی پلا رہا ہوں گا۔ لوگ پانی کی خاطر میرے قریب آئیں گے، اچانک کچھ لوگوں کو مجھ سے دور کر دیا جائے گا اور وہ حوض کوثر کے پانی سے محروم ہو جائیں گے۔ میں پکاروں گا کہ یہ میرے امتی ہیں، تو مجھے کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں پتہ کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا۔

محدثین حضرات نے اس کے حدیث مبارک کے تحت تین طبقات شامل کیے ہیں۔

اول: وہ گروہ جنہوں نے مسلمانوں کی جماعت میں دراڑ ڈالی اور اس سے جدائی اختیار کی۔

ایک اور حدیث مبارک میں ایسے لوگوں پر جنہوں نے مسلمانوں کی وحدت کو توڑا لعنت کی گئی ہے۔
کیا داعشی فتنہ گروں نے پوری دنیا بالخصوص افغانستان میں مسلمانوں کی وحدت کو نہیں توڑا؟
کیا داعش نے اپنی تنظیم کو جدا اور الگ نہیں کیا جس سے اختلاف پیدا ہوا اور لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔
کیا داعش نے مسلم ممالک کی معدنیات اور وسائل نہیں لوٹے؟
یہ وہی ہیں جنہیں حوض کوثر سے دور اور اس کے پانی سے محروم کر دیا جائے گا۔

دوم: وہ لوگ حوض کوثر سے محروم ہوں گے جو دین میں نئی چیزیں پیدا کرتے ہیں اور اسے دین کا حصہ بنا لیتے ہیں بالخصوص اصحاب کرام اور امت کے اکابر کے خلاف بغض و عناد رکھتے ہیں۔

داعشی فتنہ گروں سے زیادہ بدعات کا مرتکب کون ہوا ہو گا؟
انہوں نے تو خاوندوں کے موجود ہونے کے باوجود غیر ملکی عورتوں سے نکاح کیے، شام میں غیر مسلم لڑکیوں سے شادیاں کیں، لوگوں کی ذاتی جائدادیں غصب کیں اور دلیل کے طور پر قرآن و حدیث کو لے آئے اور اس میں تحریف و تعویل کی۔
انہوں نے صحابہ کرام کی قبروں کو بموں سے اڑایا، علماء کو بغاوت کے نام پر شہید کیا اور امت کے اکابرین کے سب سے بڑے دشمن بھی یہی ہیں۔
یہ دوسری صفت ہے جو داعشیوں پر سو فیصد صادق آتی ہے۔

سوم: وہ لوگ جو دین کو اپنی خواہشات کا تابع بنا لیتے ہیں اور قران و حدیث کی تاویل کرتے ہیں۔

داعشی فتنہ گروں نے کیسے دین کو اپنی مرضی کے مطابق کیا۔
کس طرح وہ ایک مقدس اسلامی نظام کے ساتھ برسر جنگ ہیں اور اپنی حقانیت کے لیے نصوص سے استفادہ کرتے ہیں اور ان کی غلط تاویل کرتے ہیں۔

یہ تینوں نشانیاں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائیں ان میں موجود ہیں۔

عالم اسلام کی یہ ذمہ داری ہے کہ مادی منافع اور شیطانی سیاست کو ایک طرف رکھ کر ایسے فتنوں کا مقابلہ کریں اور انہیں ختم کریں جن کے پاس امت کی تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ورنہ یہ وائرس مزید پھیلے گا اور لوگوں کو مزید نقصان پہنچائے گا اس لیے بہتر یہ ہے ہر ملک سے اس کی جڑیں تک ختم کر ڈالی جائیں۔

الحمد للہ ہمارے بہادروں نے ان کی جڑیں کاٹ ڈالی ہیں اور اب یہ بس آخری سانسیں لے رہے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔!

Author

Exit mobile version