دو پڑوسی: داعش کی ترقی کے لیے متحد

✍️ ابو ھاجر الکردی

#image_title

شاید حالیہ عرصے میں آپ نے داعش کے ایک رہنما (عبد اللہ کوئٹہ) کی پاکستان میں گرفتاری اور اس کی ایران منتقلی کی خبریں سنی ہوں۔

ایران کے خبر رساں ذرائع اور موصول شدہ اطلاعات کے مطابق، عبد اللہ کوئٹہ کا شمار داعش کے رہنماؤں میں ہوتا تھا اور ایران کے شہر کرمان میں قاسم سلیمانی کی برسی کے اجتماع میں حملے کا منصوبہ ساز تھا جس میں سو سے زائد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے بار بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ امارت اسلامیہ کے اقتدار میں افغانستان داعش کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے، لیکن باوثوق ذرائع کے مطابق پاکستانی حکومت نے واضح طور پر خیبرپختونخواہ، بلوچستان اور سندھ کے بعض علاقوں میں خوارج کو جگہیں دے رکھی ہیں، تاکہ عسکری تربیت کے بعد پاکستان اور افغاسنتان میں سنی علماء کے خلاف حملے کریں۔

حکومتِ پاکستان جو ہمیشہ داعش کے خلاف جنگ کا دعویٰ کرتی ہے اور بظاہر مغربی ممالک سے داعش کے خلاف لڑنے کے لیے بھتہ وصول کرتی ہے، درحقیقت اپنے بیانات اور جھوٹی رپورٹس میں افغانستان کی توہین کر رہی ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ تاجکستان اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان باہمی مفاہمت اور تعاون میں وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ خطے میں داعش کی افرادی قوت تاجکستان تیار کرے اور انہیں عسکری تربیت پاکستان فراہم کرے۔

سوال یہاں یہ ہے کہ اگر افغانستان داعش کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہوتا اور اگر انہیں امارت اسلامیہ کی طرف سے خطرہ لاحق نہ ہوتا، تو آپ کے خیال میں وہ افغانستان کی بجائے پاکستان میں رہنے کا انتخاب کرتے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اس ملک کے جوانمردوں کی سخت ضربوں کے بعد داعش کے بعض تربیت یافتہ باغی غلام مارے گئے اور دیگر نے پاکستان اور تاجکستان کے محفوظ مقامات پر پناہ لے لی۔

اس طرح اللہ تعالیٰ ایسوں کو ناکام و رسوا کر دیتا ہے جو دیگر پر تہمت لگاتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں۔

Author

Exit mobile version