شام میں ہیئۃ تحریر الشام کی فتح: مؤقف اور اثرات

ابو یوسف جمال

شام میں ہیئت تحریرالشام کی فتح مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور عالمی مؤقف میں اہم تبدیلی لا رہی ہے، ہیئت تحریرالشام مشرق وسطیٰ میں بشار الاسد حکومت کے خلاف مسلح گروپوں کے ایک مجموعے کا نام ہے جو شام میں بشار الاسد کی ظالم حکومت کا خاتمہ اور ایک بہتر نظام کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ داعشی گروہ ان سے مختلف ہے، وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے اسلام پسند گروپوں کے خلاف بھی لڑ رہا ہے۔

شام میں ہیئت تحریر الشام کے ساتھ ساتھ کرد بھی وسیع جغرافیے پر تسلط رکھتے ہیں، جبکہ داعشی گروہ بھی کچھ علاقوں میں اثر و رسوخ رکھتا ہے، تاہم اس کا کنٹرول محدود ہے۔ یہ دونوں گروہ ہیئت تحریر الشام کے لیے اہم رکاوٹیں ہیں اور ممکنہ طور پر بعض ممالک ان گروپوں کو پراکسی قوتوں کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ہیئت تحریر الشام کے خلاف اپنے بیرونی اتحادیوں کے ساتھ مل کر فوجی کاروائیاں کر سکتے ہیں۔

ممکن ہے کہ کرد، داعش کے مقابلے میں اتنے خطرناک نہ ہوں اور جنگ کے بجائے بات چیت کا راستہ اختیار کریں لیکن داعشی گروہ پراکسی جنگوں کا ایک وسیع پس منظر رکھتا ہے، یہ متنازعہ ملیشیا دنیا کے مختلف ممالک، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں اسلام پسند گروپوں اور بعض ممالک کو دھمکیاں دینے کے لیے فوجی دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ داعش کی قیادت مشرق وسطیٰ میں مقیم ہے اور اسی وجہ سے وہ شام اور پورے علاقے میں اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے مسلسل کوششیں کررہے ہیں۔

شام اپنے اسٹرٹیجک حیثیت کی وجہ سے ایران، روس اور دیگر ممالک کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ ممالک چاہتے ہیں کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی پیشرفت پر نظر رکھیں۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ روس یوکرین کی جنگ میں مصروف ہونے کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کو کم توجہ دے رہا ہے، جس کے نتیجے میں ہیئت تحریر الشام استحکام کی جانب گامزن ہوجائے، اس کے برعکس، ایران ابھی بھی خطرات پیدا کر کے علاقے میں اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھ سکتا ہے۔

صہیونی حکومت جو اس وقت فلسطین کی جنگ میں ملوث ہے، مشرق وسطیٰ میں اسلام پسند گروپوں کی ترقی پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ان سے لاتعلق نہیں ہے۔ اسرائیل کو خوف ہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت اور افواج سے بچ جانے والے فوجی ساز و سامان، بشمول حماس مشرق وسطیٰ کے دیگر جہادی گروپوں کے طاقتور ہونے کے لیے استعمال نہ ہو اور اس سے اسرائیل کے خلاف ایک اتحاد نہ بن جائے جو اس کی ناجائز حکومت کے لیے چیلنج بن جائے۔

مشرق وسطیٰ میں شام کی اہمیت کے پیشِ نظر ہیئت تحریر الشام کا مستحکم ہونا اور اس کا دوام مجموعی طور پر صلیبیوں کے اسٹرٹیجک مقاصد سے متصادم ہے۔ تاہم ہیئت تحریر الشام شریعت کے نفاذ، عوامی حمایت، انتقام کی بجائے عمومی معافی کے اصولوں کے نفاذ اور عالمی سیاست میں غیر جانبداری کو برقرار رکھنے کے ذریعے مثبت تعلقات قائم کرکے ایک مستحکم اور مرکزی نظام قائم کر سکتی ہے اور مستقبل میں مزید استحکام کی طرف قدم بڑھا سکتی ہے۔

Author

Exit mobile version