شہید سعید اسماعیل (تقبله اللہ) ولد محمد ایوب، جن کا تعلق وردگ صوبے کے سید آباد ضلع کے ڈنډوکي گاؤں سے تھا۔ انہوں نے ۱۳۷۳ ہجری شمسی مطابق تقریباً ۱۹۹۴ء میں ایک دیندار مجاہد خاندان اور اس فانی دنیا میں آنکھ کھولی۔
نویں جماعت تک عصری تعلیم حاصل کی، اس کے بعد ایک دینی مدرسے میں داخلہ لیا۔ صوفی ملا گل خان بابا کے مدرسے میں قرآن کریم کے حفظ میں مشغول ہو گیا۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ مجاہدین کے ساتھ میدانِ جہاد میں بھی سرگرم رہے۔ وقتاً فوقتاً وہ خفیہ طور پر مجاہدین کے ساتھ بارودی سرنگیں بچھانے یا گھات لگانے کے لیے جاتے تھے۔ یہ خفیہ جہادی سرگرمیاں تین سال تک جاری رہیں، جن کی ان کے گھر والوں اور دوستوں کو کوئی خبر نہ تھی۔
ان کے چچا نے ایک واقعہ یوں بیان کیا:
ایک رات دیر گئے اسماعیل کے کمرے میں گیا۔ بستر بچھا ہوا تھا، لیکن وہ خود موجود نہیں تھا۔ میں فوراً سمجھ گیا کہ وہ مجاہدین کے ساتھ خفیہ طور پر گیا ہے۔ میں نے اس کے والد کو اطلاع دی، لیکن اس کی والدہ درمیان میں بولیں: بہت عرصہ ہو گیا ہے کہ اسماعیل مجاہدین کے ساتھ بارودی سرنگیں بچھانے جاتا ہے، تمہیں اب پتہ چلا ہے؟ پھر اس کی ماں اور باپ دونوں نے مل کر اس کے لیے دعا کی اور کہا: ہم نے اسے اللہ جل جلالہ کے سپرد کر دیا ہے۔
اسماعیل نے ابتدائے جوانی سے ہی عملی طور پر جہادی میدان میں قدم رکھا۔ وہ سید آباد ضلع میں ہونے والے زیادہ تر کمینوں (گھات حملوں)، بارودی سرنگوں اور حملوں میں شریک رہتا۔ وہ جنگوں، چھاپوں اور سخت حالات سے بخوبی واقف ہو گیا تھا۔ چونکہ ہر حملے یا گھات کے بعد مجاہدین کے گھروں میں کافی بے چینی اور اضطراب چھا جاتا تھا، ہر کوئی اپنے مجاہد بیٹے کی واپسی کی راہ تکتا رہتا تھا۔
اسی طرح ایک دن اسماعیل کی شہادت کی افواہ پھیل گئی۔
اس کے بھائی نے بتایا: جب اسماعیل کی شہادت کی خبر پھیلی، مجھ تک بھی یہ خبر پہنچی۔ دل پر دکھوں اور غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، میں حیران و پریشان ادھر ادھر گھوم رہا تھا۔ زمین میرے لیے تنگ ہو گئی تھی۔ آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ رہے تھے۔ میں اپنے گاؤں سے دوسرے گاؤں ’’چهاردهی‘‘ کی طرف اپنے تھکے ہارے اور لڑکھڑاتے قدموں سے روانہ ہوا۔ دل میں کہتا جا رہا تھا: میرا چھوٹا بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہا ہوگا، وہ کیسے اور کہاں شہید ہوا ہوگا؟ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میں کس حال میں تھا، چہرے کا رنگ زرد پڑ چکا تھا، ہونٹ خشک اور بے جان ہو چکے تھے، میں گھبراہٹ کے عالم میں چل رہا تھا۔
لیکن اچانک شہید بلال نے مجھے آواز دی: ہمایوں! تم اتنے پریشان کہاں جا رہے ہو؟ خیریت تو ہے؟
بلال، اسماعیل کا مجاہد ساتھی تھا۔ میں نے روہانسی آواز میں کہا: میرا بھائی شہید ہو گیا ہے!
وہ ہنس پڑا۔ میں نے ناراض ہو کر کہا: میرا بھائی شہید ہو گیا ہے اور تم ہنس رہے ہو؟
تو وہ بولا: وہ تو بالکل خیریت سے ہے، کس نے کہا کہ وہ شہید ہو گیا ہے؟ آؤ، میں تمہیں اس کے پاس لے چلتا ہوں۔
میں حیران و پریشان اس کے ساتھ چل پڑا۔ اس نے مجھے ایک مجاہد کے سامنے لا کھڑا کیا جو فوجی یونیفارم میں ملبوس تھا اور چہرے پر رومال ڈالے ہوئے تھا۔ اس نے کہا: یہ ہے اسماعیل!
میں نے فوراً اس کے چہرے سے رومال ہٹایا تو اسماعیل نے قہقہہ لگاتے ہوئے مجھے کہا: قریب تھا کہ تم رو پڑتے، او بزدل!
میں نے اسے سینے سے لگا لیا، میرے غم اور افسوس کے آنسو خوشی کے آنسوؤں میں بدل گئے۔ ایک لمحے تک میں نے اسے سینے سے لگائے رکھا، پھر ہم دونوں گھر کی طرف روانہ ہوئے۔
چونکہ یہ نوجوان مجاہد باصلاحیت، پرہیزگار اور باہمت تھا، اس لیے اسے اس کے کماندان نے ان مجاہدین کی فہرست میں شامل کیا جنہیں خوارج (داعش) کے خلاف لڑائی کے لیے ننگرہار روانہ کیا جا رہا تھا۔ وہ اپنے یونٹ کے ساتھ روانہ ہوا، لیکن گھر والوں کو اطلاع نہ دی۔
اس کا والد غربت کے باعث ایران میں مزدوری کر رہا تھا، اور وہیں مسافرت کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ وہ کہتا ہے:
ایک دن میں بہت تھکا ہوا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے کال اٹھائی تو ایک پیاری سی آواز سنائی دی۔ یہ میرے دل کے نہایت قریب، میرے پیارے بیٹے اسماعیل جان کی آواز تھی۔ وہ بہت محبت سے بات کر رہا تھا۔ میں نے گھر کے حالات اس سے پوچھے، کافی دیر بات ہوتی رہی۔ آخر میں اس نے کہا: ابو! ایک بات کہوں اگر آپ ناراض نہ ہوں۔ میں نے کہا: کہو بیٹا، کیوں ناراض ہوں گا؟
اس نے کہا: ابو جان! میں آپ کی اجازت کے بغیر ننگرہار ولایت میں جہاد کے لیے یونٹ کے ساتھ آ گیا ہوں۔ یہاں ہم داعش کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ دل بے قرار تھا کہ آپ سے اجازت نہیں لی تھی۔
میں نے کہا: بیٹا! میں نے تمہیں اس اللہ کے سپرد کیا ہے جس نے تمہیں مجھے عطا کیا۔
وہ زور سے ہنسا اور کہا: ابو جان! آپ تو بڑے بہادر انسان ہو۔
میں نے اپنی بات دوبارہ دہرائی، تو وہ بہت خوش ہوا۔ پھر اس نے الوداع کہا، مگر مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ میرے بیٹے کی آخری الوداعی بات تھی۔ ایک ہفتے بعد وہ شہید ہو چکا تھا۔
شہادت:
شہید اسماعیل جان نے ولایت وردگ کے سیدآباد ضلع میں متعدد آپریشنز میں نہ صرف ذاتی طور پر شرکت کی، بلکہ اسلام، مسلمانوں اور خصوصاً بین الاقوامی سطح پر اسلامی تحریکوں کو ختم کرنے کے لیے پیدا کی گئی بدنام زمانہ تنظیم ’’داعش‘‘ کے خلاف ننگرہار کے پہاڑوں میں جہادی سفر کیا۔ وہاں اس نے دیگر مجاہدین کے ساتھ مل کر اس باطل گروہ کے خلاف بڑی جرات و بہادری کے ساتھ جنگ لڑی۔
خوارج، ان جانثار نوجوانوں کی جانب سے شدید حملوں کے باعث دم توڑنے کے قریب پہنچ چکے تھے، اور ان کی نابودی کا وقت قریب تھا۔ ایسے وقت میں قابض افواج نے اپنی پرانی روش کے مطابق ان کی مدد شروع کر دی، اور مجاہدین کے مورچوں پر فضائی حملے اور رات کے چھاپے شروع کیے۔ انہی فضائی و زمینی کاروائیوں کے دوران، اسماعیل اور فرنٹ لائن پر موجود کئی غازی دشمن کے حملوں میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔
اسماعیل نے ۲۴ عقرب ۱۳۹۷ ہجری شمسی مطابق نومبر 2018ء کو ننگرہار ولایت کی خوگیانی ضلع کے وزیر تنګي علاقے میں ایک بزدلانہ فضائی حملے کے دوران عظیم قربانی دی اور چند ساتھیوں سمیت شہادت کے بلند مقام پر فائز ہوئے۔
نَحْسَبُهُمْ كَذَٰلِكَ وَاللّٰهُ حَسِيبُهُمْ